مرزا عبدالقدوس
جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے افغان علما کے وفد کو مشورہ دیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان آپس کی بعض غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے کسی بھی سطح پر اور کسی بھی خفیہ مقام پر مذاکرات کریں، تاکہ افغانستان میں امن و امان جو ہر افغان شہری کی شدید خواہش ہے، اس جانب مثبت پیش رفت ممکن ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق افغان علما کا وفد کابل واپس جاکر اس حوالے سے افغان حکومت کو اعتماد میں لے گا اور مولانا سمیع الحق کو اس بارے میں آگاہ کرے گا۔ افغان حکومت کے مثبت جواب کی صورت میں مولانا سمیع الحق اگلے چند دنوں میں افغان طالبان کی قیادت سے پیغام رسانی کریں گے اور اگر وہاں سے بھی مولانا سمیع الحق کے مشورے کو پذیرائی ملی تو ممکنہ طور پر دونوں فریقین کے درمیان اسی خطے میں خفیہ مذاکرات ہوں گے، جس کا مقصد غیر ملکی افواج کی فوری واپسی اور افغانستان میں امن و امان اور عوام کی نمائندہ حکومت کا قیام شامل ہوگا۔ مولانا سمیع الحق کو افغان طالبان اب بھی اپنے روحانی باپ کا درجہ دیتے ہیں۔ جبکہ مولانا سمیع الحق نہ صرف ان کو اپنے بچوں کی طرح عزیز سمجھتے ہیں، بلکہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی انہوں نے طالبان کا موقف کھل کر بیان کیا ہے۔ اب مولانا سمیع الحق کے مشورے پر افغان حکومت اور طالبان کس حد تک عمل کرتے ہیں، یہ آنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گا۔
جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق نے اس بارے میں ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’افغان حکومت کے بھی بعض مسائل ہیں۔ وہ جن قوتوں کے سہارے کھڑی ہے، وہ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔ جبکہ طالبان اس کی اسی کمزوری کی وجہ سے اس کے ساتھ مذاکرات کو بے مقصد سمجھتے ہیں۔ طالبان کا موقف ہے کہ بیرونی افواج افغان سرزمین سے واپسی کا اعلان کریں، جس کے بعد ہم افغان آپس کے باہمی مسائل خود مذاکرات کے ذریعے پر امن طریقے سے حل کرلیں گے‘‘۔ ایک سوال پر مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ’’ماضی میں بھی افغان حکومت کے بعض ذمہ دار جس میں افغانستان کے پاکستان میں سفیر بھی شامل ہیں، مجھ سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ لیکن کوئی پیش رفت اس لئے نہیں ہو سکی کہ افغان حکومت کوئی بڑا فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ طالبان کو مذاکرات کرنے کے لئے اس صورت میں مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ جب دوسری جانب بھی قوت فیصلہ سے لیس مذاکرات کار موجود ہوں۔ افغانستان میں بہتے خون کو روکنے کے لئے ہماری شدید خواہش ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان کسی بھی سطح پر مثبت روابط ہوں، تاکہ مذاکرات کی فضا بن سکے‘‘۔
جے یو آئی (س) کے مرکزی رہنما مولانا محمد یوسف شاہ افغان علما کے ساتھ ملاقات میں موجود تھے اور اس سے پہلے بھی وہ افغان حکومت کے نمائندہ وفود کی مولانا سمیع الحق سے ملاقاتوں کے عینی شاہد ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سید یوسف شاہ نے کہا کہ مولانا سمیع الحق نے مل بیٹھنے کا جو مشورہ دیا ہے، اگر اس پر دونوں فریقین نے مثبت جواب دیا تو اگلا راستہ بھی ہموار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان فی الحال باقاعدہ مذاکرات کا امکان نہیں ہے، لیکن اس کے لئے فضا تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سید یوسف شاہ نے بتایا کہ ’’افغانستان میں 2001ء کے بعد سے باہمی لڑائی میں تقریباً ہر سال پچاس ہزار افراد موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں اور اب تک آٹھ نو لاکھ افراد موت کا شکار ہوئے ہیں۔ ہمیں اس خون ریزی کو روکنا ہے۔ طالبان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ غیر ملکی افواج افغان سرزمین خالی کردیں۔ لیکن یہ مطالبہ ماننے میں افغان حکومت عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان سرزمین سے تعلق رکھنے والی ان دونوں قوتوں کے درمیان ابتدائی طور پر اعتماد کی فضا پیدا ہو، جس کے لئے ہماری کوشش ہے۔ مولانا سمیع الحق کی تجویز بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اگر افغان حکومت نے مثبت جواب دیا تو پیغام رسانی کے ذریعے طالبان تک بات پہنچائیں گے۔ وہ مولانا سمیع الحق کو اپنا روحانی باپ سمجھتے ہیں، جبکہ مولانا بھی ان کو بہت عزیز رکھتے ہیں‘‘۔ ایک سوال پر مولانا سید یوسف شاہ کا کہنا تھا کہ ’’طالبان سے رابطہ کرنا آسان کام نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک عرصے سے گراؤنڈ ہیں۔ لیکن ان سے پیغام رسانی ہفتوں یا مہینوں نہیں دنوں کا کام ہے بشرطیکہ افغان حکومت مثبت جواب دے اور وہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہو‘‘۔
٭٭٭٭٭