سرفروش

0

عباس ثاقب
دادر کے ٹیکسی اسٹینڈ کے سامنے سے گزرتے ہوئے مجھے اسلم کی ٹیکسی وہاں نظر نہیں آئی۔ میں اگلے چوک سے ٹیکسی گھماکر لایا اور ٹیکسی اسٹینڈ پر ایک طرف کھڑی کردی۔ لگ بھگ فوراً ہی ٹیکسی کی صفائی کرنے والا لڑکا اپنی بالٹی اٹھائے آن پہنچا۔ میں نے اسے صرف کپڑا مارنے کا کہا اور ایک روپیہ تھماکر چائے والے کے کھوکھے کے پاس رکھی بنچوں پر جا بیٹھا۔
میں نے چائے کی پیالی ختم ہی کی تھی کہ اسلم کی ٹیکسی اسٹینڈ میں داخل ہوتی نظر آئی۔ میں نے چائے کی قیمت چُکائی اور اسلم کی ٹیکسی کے سامنے سے گزرتا ہوا ایک الگ تھلگ گوشے کی طرف چل پڑا۔ اس نے سرکی جنبش سے مجھے دیکھ لینے کا اقرار کیا۔ میرے دس منٹ انتظار کرنے کے باوجود وہ میرے پاس نہیں آیا، بلکہ چائے پینے کے بعد ایک بار پھر ٹیکسی میں بیٹھ کر باہر کی طرف چل دیا۔
کچھ ہی دیر بعد ہماری گاڑیاں آگے پیچھے چلتے ہوئے ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والا پل پار کر کے دھاروی کی حد درجہ گنجان آباد کچی بستی میں داخل ہوگئی۔ تنگ سڑکوں اور گلیوں پر ان گنت موڑ مڑنے کے بعد ہم ایک چوک نما جگہ پہنچ گئے، جس کے تین اطراف دکانیں اور ڈھابے نما طعام خانے اور دیسی شراب کے اڈے وغیرہ تھے اور چوتھی طرف ایک بڑا سا جوہڑ تھا۔
اسلم کو ایک طرف ٹیکسی روکتے دیکھ کر میں نے بھی قریب ہی اپنی ٹیکسی کھڑی کر دی۔ اسلم ٹیکسی سے اتر کر میری طرف بڑھا اور مصافحہ کرکے کہا۔ ’’بے فکر ہوکر اتر آؤ بھیا، یہ آزاد دنیا ہے، یہاں کسی کو کسی کی پروا نہیں ہے‘‘۔
میں نے اترکر اس سے گلے ملنے کے بہانے کیمرے والا سگریٹ کیس اس کی واسکٹ کی جیب میں ٹھونس دیا، جو اس نے نکال کر اندر والی جیب میں منتقل کر دیا۔ میں اس دوران میں وہاں کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔ لگ بھگ سبھی کھانے پینے اور پینے پلانے کی جگہوں پر زبردست ہجوم نظر آرہا تھا۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن دکھائی دے رہا تھا۔ ہماری ٹیکسیوں کے علاوہ بھی وہاں درجنوں ٹیکسیاں اور آٹو رکشے کھڑے ہوئے تھے۔ وہ جگہ شاید ٹیکسی اور رکشا ڈرائیوروں کا خاص ٹھکانا تھی۔
مجھے بغور اردگرد کا جائزہ لیتے دیکھ کر اس نے کہا۔ ’’یہ دھاروی کا علاقہ تاڑوادی لین ہے۔ یہاں سب کھلا چلتا ہے۔ شراب، چرس، گانجا، جوا، جسم فروشی…۔ روڈ پار پولیس اسٹیشن ہے، مگر کوئی وردی والا اس طرف آنے کی زحمت نہیں کرتا۔ ان کا حصہ وہیں پہنچ جاتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پھر تو بہت خطرناک بھی ہوگی۔ اجنبی تو اس طرف کا رخ نہیں کر سکتے‘‘۔
اسلم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’یہاں صرف ایسے لوگوں کو خطرہ ہے جن پر پولیس کے مخبر کا شبہ ہو جائے۔ اس لیے ہر نئے بندے کی چوری چھپے کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور کسی پر شک گہرا ہو جائے تو کسی بھی کونے کھدرے میں روک کر تلاشی لی جاتی ہے اور شبہے کی تصدیق ہونے پر اگلے دن اسی گندے جوہڑ سے اس کی گلا کٹی لاش برآمد ہوتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے اگر میں اکیلا یہاں آتا تو میرے لیے بھی خطرہ ہوتا؟‘‘۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یقین ہے تم یہاں آنے کے بعد نہ شراب کے اڈے پر جاتے اور نہ ہی کسی جوئے خانے پر قسمت آزمائی کرتے۔ ظاہر ہے جسم فروشی کے کسی اڈے کا رخ بھی نہ کرتے۔ تواس طرح تمہاری بلاوجہ یہاں آمد تمہیں خود بخود مشکوک بنادیتی‘‘۔
جانے کیوں مجھے یکایک شرارت سوجھی۔ ’’اس کا مطلب تو یہ بھی ہے اسلم بھائی کہ آپ یہ سب شوق کرنے کے لیے یہاں کا رخ کرتے رہتے ہیں؟ ورنہ اب تک آپ کی لاش بھی اس جوہڑ سے برآمد ہو چکی ہوتی!‘‘۔
میری بات سن کر اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور پھر کہا۔ ’’بھیا تم بہت تیز آدمی ہو، باتوں میں بندے کو گھیرنا تمہیں خوب آتا ہے۔ باقی اتنی سمجھ تو ضرور رکھتے ہوگے کہ کوئی بھی بندہ اتنی آسانی سے اپنا پول کسی کے سامنے نہیں کھولتا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اچھا اتنا تو بتادو کہ ہم ان ہی میں سے کوئی شوق پورا کرنے یہاں نہیں آئے تو کیا اس مہاشے گربچن سنگھ ساندھوسے ان شغل خانوں میں کہیں ملاقات ہوگی؟‘‘۔
میری بات سن کر وہ سنجیدہ ہوگیا۔ ’’نہیں، اس کی اب ایسی حالت نہیں ہے کہ اس طرح کی عیاشیاں کر سکے۔ مجھے صبح پتا چلا ہے کہ اس طبیعت بہت خراب ہے اور وہ ٹیکسی لے کر گھر سے نہیں نکلا ہے۔ وہ اسی آبادی میں رہتا ہے۔ ہم ملنے کے لیے اس کے گھر جارہے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ ایک گلی کی طرف بڑھا۔ میں نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔ ’’اسے کوئی خطرناک بیماری لاحق ہے؟‘‘۔
اسلم نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’وہ بلا نوش ہے۔ جانے کتنے برسوں سے شراب کی لت میں گرفتار ہے۔ گھٹیا دیسی شراب کی کثرت نے اس کا جگر تباہ کر دیا ہے۔ ایک تو اس کے پاس اپنا مناسب علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ دوسرے اب شراب کی لت اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ وہ شراب سے پرہیز جیسی علاج کی پہلی شرط پوری کرنے کے قابل نہیں رہا‘‘۔
میں نے تنگ گلی میں اس کے قریب رہنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’اس کے گھر والے نہیں ہیں؟ میرا مطلب ہے بیٹے وغیرہ، جو اس کا ہاتھ بٹاسکیں اور علاج میں مدد دے سکیں‘‘۔
اسلم نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’گربچن زندگی میں کبھی شادی اور خاندان جیسے بکھیڑوں میں نہیں پھنسا۔ نوجوانی کے دور میں ترن تارن سے بھاگ کر دلّی چلا گیا تھا۔ مختلف دھندوں میں لگ کر صرف اتنا کمایا کہ عیاشی سے زندگی گزار سکے۔ پھر عمر ڈھلنے پر گاؤں واپس گیا اور بھائیوں پر بوجھ بن گیا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More