صفی علی اعظمی
بھارت میں مسلمانوں کی جان و مال تو سلامت ہے ہی نہیں، اب انتہا پسند ہندو تنظیموں کے ہاتھوں ایمان بھی محفوظ نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کے بعد اب قانونی امداد کا لالچ دے کر بھی بھارتی مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکا زنی کی جارہی ہے۔ باغپت کے رہائشی نوجوان گل حسن کو دہلی میں قتل کردیا گیا تھا، جسے پولیس خودکشی کا کیس قرار دیتی رہی۔ تاہم انتہا پسند تنظیم ’’ہندو یووا سینا‘‘ اور پولیس کے بعض اعلیٰ افسران نے مقتول کے باپ اختر حسن کو انصاف دلانے کی اس شرط پر یقین دہانی کرائی کہ وہ پوری فیملی سمیت ہندو ہوجائے۔ چار و ناچار، اختر اور اس کی فیملی کے 13 افراد نے تبدیلی مذہب کی درخواست دیدی ہے۔ باغپت کے ضلع مجسٹریٹ رشی رندرا کمار کے دفتر کے باہر تبدیلی مذہب کا فارم جمع کرانے کے بعد اختر نے اس امید کا اظہار کیا کہ اب ان کے نوجوان بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ اختر کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ہندو مت محض اس لئے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ شاید اس طرح ان کی بات سنی جائے۔ اختر حسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چھپر ولی پولیس اسٹیشن کے تفتیشی افسران نے ان کے بیٹے کے قتل کی تحقیقات محض اس لئے روک دیں کہ ان کا مذہب اسلام ہے۔ انہوں نے بہت کوشش کی لیکن پولیس والے گل حسن کے قتل کو خودکشی قرار دیتے رہے۔ زیادہ اصرار کرنے پر اختر کو پولیس اسٹیشن سے بھگا دیا گیا۔ اس پر دل شکستہ اختر نے مقامی تنظیم ہندو یووا سینا کے سربراہ سوکیندرا کھوکھر سے ملاقات کی اور ان سے مدد طلب کی۔ جس پر کھوکھر نے انہیں کہا کہ پولیس کو مسلمانوں کی مدد نہ کرنے کا پابند کردیا گیا ہے۔ اس لئے ان کے بیٹے کا مرڈر کیس درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جارہا۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ کیس کی درست سمت میں تفتیش ہو اور قاتل کیفر کردار تک پہنچیں تو انہیں خاندان سمیت ہندو مت قبول کرنا ہوگا۔ اختر حسن نے ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر میں ہندو مت قبول کرنے کیلئے فارم جمع کراتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ محض اس لئے ترک اسلام کر رہے ہیں کہ ان کے بیٹے کے قاتلوں کو گرفتار کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ باغپت کا رہائشی نوجوان گل حسن اختر بہتر ملازمت کیلئے نوائیڈا ضلع، دہلی گیا تھا جہاں اس نے کریانہ کی دکان کھولی۔ لیکن مقامی ہندوئوں کو اس کا تجارت کرنا پسند نہیں آیا اور انہوں نے اس کو دھمکیاں دیں جس کا تذکرہ گل حسن نے اپنے بھائی 34 سالہ دلشاد سے بھی کیا تھا۔ رواں سال 22 جنوری کوگل حسن کی لاش کو اسی کے جنرل اسٹور کی چھت کے پنکھے سے لٹکی پائی گئی۔ پولیس نے تفتیش کرنے کے بجائے کیس کو خودکشی قرار دے کر داخل دفتر کر دیا۔ تاہم مقتول کے بھائی دلشاد کی جانب سے عدالت سے رجوع کرنے کے بعد پولیس نے بادل ناخواستہ واقعے کی ایف آئی آر درج کی۔ تاہم کوئی تفتیش کی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا۔ انڈین ایکسپریس نے ہندو تنظیم کی جانب سے مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکے کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ واقعہ گائوں بدرکھا، چھپرولی پولیس اسٹیشن، ضلع باغپت میں پیش آیا ہے جہاں انتہاپسند ہندوئوں نے اختر حسن کو ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ادھر ہندو یووا سینا کے سربراہ سوکیندرا کھوکھر نے ایک پریس کانفرنس میں مقامی مسلمانوں کو کہا ہے کہ وہ سماج میں اچھے طریقے سے رہنے اور قانونی، معاشی و سماجی مدد حاصل کرنے کیلئے ’’گھر واپس‘‘ آجائیں۔ کیونکہ اس دیش میں صرف اسی کی سنی جائے گی جو ہندو ہوگا اور پولیس بھی کسی غیر ہندو خاندان کی کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ جبکہ ہندوئوں کیلئے پولیس اسٹیشنوں سمیت ہندو تنظیموں اور سرکار کے دروازے دن رات کھلے ہیں۔ مذکورہ ہندو تنظیم نے صرف اترپردیش میں 2020ء تک چار لاکھ مسلمان گھرانوں کو ہندو بنانے کا ٹاسک رکھا ہے، جسے وزیر اعلیٰ اتر پردیش یوگی آدتیا ناتھ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس حوالے سے دہلی میں مقیم مسلم بلاگر احمد حسین کا کہا ہے کہ ’’باپو‘‘ کے دیش میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور نچلی ذات کے ہندوئوں کی جان و مال، عزت آبرو کبھی محفوظ نہیں رہے۔ مسلمان اور عیسائیوں کو دھونس دھمکی سے ’’شدھی‘‘ کرنے (ہندو بنانے) کا عمل اب ریاستی اداروں اور نام نہاد سیاست دانوں نے بھی سنبھال لیا ہے۔ احمد حسین کا کہنا تھا کہ گزرتے وقت کا ہر دن ثابت کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے لئے علیحدہ دیش کیلئے جناح صاحب کا مطالبہ کتنا درست تھا۔ دوسری جانب ابوالکلام آزاد، جنہوں نے ہندو مسلم ایکتا کی خاطر زندگی صرف کردی اور بھارت دیش کی تقسیم کی مخالفت کرتے رہے، ان کا نظریہ کس قدر غلط تھا۔ ٭
٭٭٭٭٭