کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) نہری پانی کی قلت کے باعث گندم کی فصل کوخطرات لاحق ہو گئے ۔سندھ حکومت نےنہری پانی میسر نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے آبادگاروں کو مشورہ دیا ہے کہ صرف اس زمین پر گندم کی بوائی کی جائے جہاں پر ٹیوب ویل وغیرہ نصب ہیں ۔پانی بحران کے باعث دھان کی فصل بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔محکمہ آبپاشی نے ابھی سے نہروں میں وارہ بند ی کی تیاری شروع کردی ۔جبکہ ربیع میں آبادگاروں کو چنا، باجرہ ، جوار خوردنی تیل والی فصلوں سمیت ایسی فصلوں کی بوائی کرنے کا مشورہ دیا ہے جو ایک مرتبہ پانی ملنے سے تیار ہوسکیں جبکہ حکومت بحران جاری رہنے کی صورت میں جنوری سے زرعی مقاصد کیلئے پانی بند کرنے پر غور کر رہی ہے ۔ باخبرذرائع کے مطابق اس مرتبہ مون سون کی بارشیں انتہائی کم ہونے کے باعث منگلااور تربیلا ڈیم پورے طرح نہیں بھرسکے ہیں۔ تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1550فٹ تک ہوتی ہے لیکن گزشتہ روز تربیلا ڈیم کالیول 1493فٹ تک ہوگیا تھا اور مذکورہ ڈیم میں پانی کی آمد 45ہزار کیوسک اور اخراج 85 ہزار کیوسک تھا اس طرح 40ہزار کیوسک ڈیم میں ذخیرہ شدہ پانی استعمال کیا جارہا ہے ۔منگلا ڈیم میں پانی کی گنجائش 1242فٹ تک ہے ،جبکہ گزشتہ روز مذکورہ ڈیم کا لیو ل تقریباً 1163فٹ ریکارڈ کیا گیا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نہری پانی کی شدید قلت کے باعث دھان کی فصل کی بوائی ایک سے ڈیڑھ ماہ تاخیر سے ہوئی ہے ۔کئی علاقوں میں اب دھان کی فصل کو مزید پانی کی ضرورت ہے ۔کم پانی ملنے کی وجہ سے فصل بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ سندھ میں 20سے 22لاکھ ایکڑ اراضی پر دھان کی فصل کاشت ہوتی ہے ۔اس ضمن میں محکمہ آبپاشی کی واٹر ڈسٹری بیوشن کی جانب سے چیف انجینئرز کو جاری کردہ لیٹر میں واضح کیاگیا ہے کہ ارسا نے ربیع کے دوران 38فیصد پانی کی قلت کا کہاہے اور محکمہ موسمیات کے حکام کا بھی کہناہے کہ ربیع کی دوران سردی کے موسم میں بھی بارش زیادہ ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ اس لئے ربیع کی فصلوں کی بوائی اس بات کو مد نظر رکھ کر کی جائے ،جبکہ محکمہ آبپاشی ذرائع کا کہناہے کہ اس وقت جو صورتحال نظر آرہی ہےاس میں نہری پانی کی قلت 50سے 60فیصد تک ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں چیف انجینئر سکھر بیراج کی جانب سے بھی سپرنٹنڈنگ انجینئر (ایس ای) روہڑی کینال حیدرآباد سرکل ایس ای خیرپور سکھر سرکل ایگزیکٹو انجینئر بیراج ڈویژن سکھر کو ارسال کردہ لیٹر میں کہاگیا ہے کہ ربیع کے حوالے سے آبادگاروں سے کہا جائےکہ گندم کی بوائی صرف ایسی زمینوں پر کی جائے جہاں ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے میٹھا پانی اسٹاک ہواور آبادگاروں سے کہا جائے کہ ربیع کے دوران صرف ایسی فصلیں کاشت کی جائیں جو ایک بار پانی ملنے سے تیار ہوجاتی ہیں جن میں چنا ، باجرہ ، جوار اور ایسی فصلیں جن کے بیج سے تیل حاصل ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گندم کی فصل کو کم سے کم دوبارپانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔خصوصاً آخری پانی کی ضرورت فروری مارچ میں اس وقت پڑتی ہے جب دانہ تیار ہونا شروع ہوتا ہے ۔ذرائع کے مطابق فروری اور مارچ میں پانی کی قلت مزید بڑھ سکتی ہے۔ حکومت کی توجہ زرعی مقاصد کیلئے پانی کے استعمال پر پابندی عائد کرکے صرف پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنے پر مرکوز ہے ۔ اس لئے آبادگاروں کو نہری پانی کی امید پر گندم کی فصل کاشت نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گندم کی پیدوار 32سے 35لاکھ ایکڑ اراضی پر ہوتی ہے اور سالانہ پیداوار 40سے 45لاکھ ٹن ہوتی ہے سب سے زیادہ پیداوار خیرپور ، نوشہروفیروز ، بے نظیر آباد اور سانگھڑ میں ہوتی ہے ۔ان اضلاع کو ریٹرھی کینال اور نارا کینال سیراب کرتی ہے ۔اس طرح روہڑی کینال کی کمانڈ ایریا میں آنیو الے علاقوں میں گندم کی فصل کیلئے نہری پانی دستیاب نہ ہونے سے گندم کی کاشت میں زیادہ کمی ہوسکتی ہے جبکہ لاڑکانہ ، قمبر شہداد کوٹ شکارپور اور دادو میں رائس کینال کے کمانڈ ایریا میں آنے والے علاقوں میں فصل کی بوائی ٹیوب ویل کے ذریعے ہوتی ہے کیونکہ ربیع میں رائس کینال میں پانی کا اخراج نہیں ہوتا جبکہ مذکورہ اضلاع میں دادو کینال کے کمانڈ ایریا میں آنیو الے علاقوں میں نہری پانی پر گندم کی فصل کاشت ہوتی ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ ا س صورتحال میں محکمہ آبپاشی نے نہروں میں وارہ بندی کرنے کی تیاری شروع کردی ہے ۔مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈیموں میں جو پانی کا ذخیرہ ہے وہ ڈھائی سے 3ماہ تک کا ہے ،جس کے بعد اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو ڈیم ڈیڈ لیول پر آجائیں گے ،جس کے بعد ڈیموں میں پانی کی جتنی آمد ہوگی ،اتنا ہی اخراج ہوگا اور پھر اسی پانی پر گزارہ کرنا پڑے گا۔