ایمنسٹی اسکیم میں جائیدادیںظاہر کرنے والوں سے بھی تفتیش
کراچی ( رپورٹ :عمران خان ) ایف آئی اے کی جانب سے دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے 2157پاکستانیوں کونوٹس ارسال کرکے ان سے حلف نامے لینے کے علاوہ رقم دبئی بھجوانے کا طریقہ کار اور ذرائع آمدنی کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ا ن میں سے 50فیصد شہری اپنی جائیدادیں حالیہ ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کرچکے ہیں ۔ ان میں سے 520کا تعلق کراچی سے ہے، جنہوں نے دبئی کی ایک ہی تعمیراتی کمپنی ”عمار “ کے 8پروجیکٹس میں سرمایہ کاری ہے ،جس میں برج دبئی ،دبئی مرینا،گرین پروجیکٹ ،مڈاس پروجیکٹ ،اسپرنگ پروجیکٹ ،رینچزپروجیکٹ ،ایمرٹس ہلز ،عمار لیکس پروجیکٹ شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول ایمنسٹی اسکیم میں جائیدادیں ظاہر کرنے والے شہریوں کو بھی ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس ارسا ل کئے جا رہے ہیں اور ان سے حلف نامے لینے کے بعد ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ انہوں نے دبئی میں جائیدادیں خریدنے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لئے پاکستان سے رقوم دبئی کس طرح بھجوائیں اور اس رقم کے پاکستان میں ذرائع آمدنی کیا تھے ۔ ایف آئی اے کی جانب سے پوچھے جانے والے سوالات نے متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں رکھنے والے شہریوں کو ایک نئی اور پریشان کن صورتحال سے دوچار کردیا ہے، کیونکہ ایمنسٹی اسکیم میں بیرون ملک جائیدادیں ظاہر کرنے والے شہری سمجھ رہے تھے کہ اب ان سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی ،کیونکہ ایمنسٹی کے قوانین کے تحت ٹیکس اور جرمانہ ادا کرنے کے بعد ایف بی آر اور ایف آئی اے کے افسران قانونی طور پر ان سے پوچھ گچھ کے مجاز نہیں رہے ،جبکہ ایف آئی اے افسران سے بات چیت میں ان کا موقف سامنے آیا ہے کہ دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے شہریوں نے جو جائیدادیں ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کی ہیں ۔ا س کے بعد وہ ٹیکس نیٹ میں آگئے ہیں ،تاہم ان سے ذرائع آمدنی اور دبئی رقم بھجوانے کے حوالے سے پوچھ گچھ اس لئے کی جا رہی ہے کہ اگر ان کے ذرائع آمدنی ناجائز ثابت ہوئے اور پاکستان سے رقم دبئی بھجوایا جانا حوالہ ہنڈی سے ثابت ہوا تو ایسے شہریوں کے خلاف مستقبل میں فارن ایکسچینج ایکٹ اور منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے ۔ایف آئی اے کو دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے شہریوں کے حوالے سے موصول ہونے والی فہرستوں میں ابہام موجود ہے۔ وقتافوقتاً موصول ہونے والی فہرستیں زیادہ تر ایک ہی جیسے ناموں پر مشتمل ہیں اور غیر تصدیق شدہ ہیں ،ایف آئی اے کراچی میں اس ٹاسک پر قائم کرنے والی ٹیم سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے شہریوں کی اب تک 3قسم کی فہرستیں ایف آئی اے کو موصول ہوچکی ہیں ۔ حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کو پہلے 300 پاکستانیوں کی فہرست موصول ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔ اس کے بعد مزید 1000پاکستانیوں کی فہرست کی اطلاعات ملیں ۔تازہ خبریں 3550پاکستانی شہریوں کی ایک نئی فہرست کے حوالے سے ہیں ،تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ فہرست 2157پاکستانی شہریوں کے کوائف پر مشتمل ہے ۔ اس صورتحال کو واضح کرنے اور حقائق جاننے کے لئے جب ‘‘امت ’’کی جانب سے تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا ہے کہ تینوں فہرستیں ایک ہی جیسے ناموں پر مشتمل ہیں ۔صورتحال کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد میں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کی سربراہی میں بیرون ملک اثاثوں کے کیس پر کام کرنے والی ٹیم کو جو بھی نئی فہرست موصول ہوتی ہے ۔یہ ٹیم اس فہرست کو پہلے سے ایف آئی اے کے پاس موجود فہرستوں کے ساتھ میچ کرکے نئے نام علیحدہ کرکے پرانے نام حذف کرنے کے بجائے ان فہرستوں کو جوں کے توں کی بنیاد پر پنجاب ،سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان میں موجود ایف آئی اے کی صوبائی ٹیموں کو ارسال کردیتی ہے تاکہ وہ خود ہی اس کی جانچ پڑتال کرسکیں اس طرح سے صورتحال کچھ یوں بن جاتی ہے کہ ہر نئی فہرست کے ارسال ہونے پر نئی خبریں سامنے آجاتی ہیں تاہم اصل اعداد وشمار کچھ اس طرح ہیں کہ پہلے سامنے آنے والی 300پاکستانی شہریوں کی فہرست اور اس کے بعد آنے والی 1000پاکستانی شہریوں کی فہرست کے علاوہ حالیہ 3550شہریوں کی فہرست میں 5000شہریوں کا ڈیٹا موجود نہیں بلکہ مجموعی طور پر ان تمام فہرستوں میں 2175 شہریوں کا ڈیٹا موجود ہے جو کہ مجموعی طور پر 3549 جائیدادوں کے مالکان ہیں ۔بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے حوالے سے ایف آئی اے میں انکوائریوں پر کام 2015سے جاری ہے جس کی بنیاد وہ خفیہ ذرائع سے موصول ہونے والی وہ ”سورس رپورٹ “ تھی جس میں ایف آئی اے کو 5400پاکستانی شہریوںکے ناموں کی لسٹ فراہم کی گئی تھی جنہوں نے دبئی سے تعلق رکھنے والے دو تعمیراتی کمپنیوں ”عمار“ اور ”دماک “کی جانب سے کراچی کے دو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں لگائی جانے والی پروپرٹی نمائشوں میں شریک ہوکر ان کمپنیوں کے دبئی سمیت متحدہ عرب امارات کے دیگر شہروں میں بننے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لئے رجسٹریشن کروائی تھی بعد ازاں ان شہریوں نے مختلف ذرائع سے رقوم دبئی منتقل کیں اور وہاں ان پروجیکٹس میں سرمایہ کاری تھی ایف آئی اے ذرائع کے بقول یہ فہرست ایف بی آر کے شعبہ انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کی ایک ٹیم کی کارروائی کے بعد انہیں ملی تھی اس ٹیم نے کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں چھاپہ مار کر دبئی کی تعمیراتی کمپنی عمار کے پراپرٹی شو کے دوران ان کے کمپیوٹر سے ریکارڈ تحویل میں لیا تھا تاہم اس کے بعد ایف بی آر کی کارروائی روک دی گئی تھی اور اس ٹیم کے انچارج کا تبادلہ کردیا گیا تھا تاہم چونکہ ایف آئی اے کو یہ فہرست آفیشل حیثیت میں نہیں ملی تھی اس لئے اس فہرست پر رجسٹرڈ ہونے والی دو انکوائریاں اگلے دو برسوں تک التوا میں پڑی رہی تھیں تاہم 2017میں قائمہ کمیٹی کی جانب سے اس کیس کو اٹھائے جانے کے بعد اس پر سپریم کورٹ کی جانب سے ایکشن لیا گیا اور اس کے بعد سے اب تک ایف آئی اے اس کیس میں 54فوجداری انکوائریاں درج کرکے مختلف رپورٹیں سپریم کورٹ میں جمع کرواچکی ہے ۔ایف آئی اے ذرائع کے بقول پہلے ملنے والی تین فہرستیں جن میں پہلی فہرست 5400شہریوں کا ڈیٹا موجود تھا اس میں سے دو مزید فہرستیں تیار کی گئی تھیں ایک فہرست 100اور 300 شہریوں کی تھی جنہیں دبئی میں جائیدادیں رکھنے والی بڑی مچھلیاں قرار دیا گیا اس کے بعد اسی ڈیٹا میں سے 1000 شہریوں کی ایک تیسری فہرست تیار کی گئی تاہم یہ ڈیٹا غیر مصدقہ اور ”ان آفیشل “ ہونے کے باعث غیر قانونی جائیدادیں بنانے والوں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف مقدمات تیار کرنے کے لئے ناکافی تھا اسی وجہ سے دو ماہ قبل ایف بی آر کے ذریعے متحدہ عرب امارات کی کمپنی ”عمار “ کو آفیشل “ نوٹس ارسال کیا گیا کہ وہ پاکستانی سرمایہ کاروں کا ڈیٹا فراہم کرے جس پر کمپنی نے متحدہ عرب امارات کے حکام کے ذریعے یہ ڈیٹا اب ایف آئی اے کو بھجوادیا ہے جس میں پہلے منظر عام پر آنے والی فہرستوں میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کا ہی ڈیٹا ہے اس میں کوئی بھی نیا نام شامل نہیں ہے ۔تازہ فہرست کے حوالے سے ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ منیر احمد شیخ نے امت کو بتایا ہے کہ یہ فہرست پورے پاکستان کے شہریوں کی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس فہرست میں پہلے سے منظر عام پر آنے والی فہرستوں کے نام اور ڈیٹا شامل ہے تو اس کو اسلام آبادمیں ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں موجود ٹیم ہی ”سارٹ آؤٹ “ کرسکتی ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ موصول ہونے والی فہرستیں غیر مصدقہ نہیں ہیں بلکہ ان کے تحت نادہندگان ،خفیہ جائیدادوں بنانے والوں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ فہرستیں اور ان پر ہونے والی انکوائری کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی جس کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ہی تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے گا،عمار کمپنی کی جانب سے موصول ہونے والی فہرست میں 13سے زائد پاکستانی مالکان کا پتہ دبئی درج ہے جبکہ پاکستان کے ایڈریس پر 800سے زائد نام ہیں جن میں پنجاب کے 300،سندھ کے 400،اسلام آباد کے 50جبکہ باقی کا خیبرپختون اور بلوچستان سے تعلق ہے،اب تک ایف آئی اے سندھ کو موصول ہونے والی تمام فہرستوں میں سے 520شہریوں کے نام اور ڈیٹا نچوڑ کے نکالا گیا ہے جنہیں نوٹس ارسال کرکے حلف نامے بھرائے جا رہے ہیں ،لگ بھگ 64صفحات پر مشتمل اس فہرست میں دبئی کی کمپنی عمار کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانی شہریوں کے نام ،دبئی کے نمبر،پاکستان کے موبائل نمبر،ان کے ای میل ایڈریس ،رابطہ کار فرد کا نام اور پروجیکٹ کا نام شامل ہے ، فہرست میں زیادہ تر پاکستانیوں کی ایک یا دو پراپرٹی ہیں مگر کچھ کی تعداد 6سے 19بھی ہیں اس طرح سے جائیدادوں کی تعداد 3549 بنتی ہے تاہم ان کے پاکستانی مالکان کی تعداد 2157ہے ،فہرست میں شامل وقار احمد نامی شخص جو کہ لاہور گلبرگ تھری کا رہائشی ہے ان کی دبئی مرینہ ،ایمرٹس ٹاور اور گرینز پروجیکٹ میں 20جائیدادیں موجود ہیں ، فرحین سلیم نامی خاتون جن کا رہائشی پتہ مڈاس پروجیکٹ دبئی ہے اور ان کے عمار کمپنی کے گرینز پروجیکٹ میں 14فلیٹس ہیں جبکہ لاہور کے ایک رہائشی زبیر کی 19پراپرٹیز ہیں، اسی طرح سے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پروجیکٹ چیئرمین کے مشیر ممتاز مسلم 18جائیدادوں کے مالک ہیں جبکہ کراچی کے حوالے سے چامڈیا فیملی کے ایک فرد کی سب سے زیادہ 10جائیدادیں سامنے آئی ہیں ،ان 2157پاکستانی شہریوں نے عمار کمپنی کے جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے ان میں برج دبئی ،دبئی مرینا،گرین پروجیکٹ ،مڈاس پروجیکٹ ،اسپرنگ پروجیکٹ ،رینچزپروجیکٹ ،ایمرٹس ہلز ،عمار لیکس پروجیکٹ شامل ہیں ،ایف آئی اے ذرائع کے بقول زیادہ تر شہریوں کا تعلق ملک کے کاروباری اور تاجر طبقہ سے ہے اس میں سیاسی شخصیات اور سرکاری افسران نہ ہونے کے برابر ہیں،دو روز قبل ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی کے دفتر میں طلب کرنے پر شہر کے ایک معروف صنعتکار خاندان کے چار افراد جوکہ ملک کے معروف ٹوتھ پیسٹ برانڈ بناتے ہیں نے حکام کو بتایا کہ وہ اپنی دبئی میں 9اور کینیڈا ،برطانیہ ،امریکہ میں 5جائیدادیں حالیہ ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کرچکے ہیں۔ تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے پیسے کس طرح منتقل کئے آیا کہ ان کے پاس کوئی بینکنگ ٹرانزیکشن کا ریکارڈ موجود ہے جس پر خاندان کے چاروں افراد پریشان ہوگئے اور انہوں جواب دیا کہ وہ تو یہ سوچ کر آئے تھے کہ ان سے صرف جائیداد ظاہر کرنے یا چھپانے کے حوالے سے پوچھا جائے گاکیونکہ رقم کی منتقلی کا ریکارڈ ان کے پاس موجود نہیں ہے جس پر ایف آئی اے افسر نے جواب دیا کہ وہ یہ سوالات حلف نامے جمع کروانے والے تمام افراد سے پوچھ رہے ہیں چاہے انہوں نے جائیداد ظاہر کردی ہے یا نہیں کیونکہ اس حوالے سے بھی رپورٹ حلف ناموں کے ساتھ انکوائری فائل کا حصہ بناکر سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے گی ۔