یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ نواب مرزا کے خالو مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی تشریف لے آئے۔ نواب مرزا انہیں دیکھ کر انہیں اور مولوی صاحب کو سلام کر کے بھاگنا چاہتا تھا، لیکن مولوی صاحب نے کہا، ’’صاحب زادے وہ اپنے شعر تو سناتے جائو۔ مولوی صاحب، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کے بھانجے صاحب کی طبیعت میں کس قدر آمد ہے اور کیا پاکیزہ مضامین ہیں، کیا شستہ زبان ہے‘‘۔
نواب مرزا کو خالو جان سے بہت خوف لگتا تھا، درحالے کہ وہ اس کے ساتھ ہمیشہ بہت شفقت کرتے تھے، لیکن ان کے تقدس اور متانت سے اسے خوف لگتا تھا کہ کوئی ذرا سی بھی ہلکی یا خلاف مزاج بات مجھ سے سرزد ہو گئی تو خالو جان ناراض ضرور ہوں گے۔ ان کے سامنے شعر سنانے سے وہ ہمیشہ بھاگتا تھا۔ لیکن اب اس نے کوئی چارہ نہ دیکھا تو طبیعت کو مضبوط کر کے ٹھہرے ہوئے لہجے اور کھلی ہوئی آواز میں اس نے کہا۔ ’’مطلع عرض کرتا ہوں۔‘‘ اور پھر پڑھاکیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میںان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میںمولانا صہبائی تو حسب سابق وجد میں آگئے، لیکن مولوی محمد نظیر کے بھی منہ سے ’’اے سبحان اللہ! پھر پڑھو‘‘ کا فقرہ بے ساختہ ادا ہو گیا۔ نواب مرزا نے سلام کر کے مطلع دوبارہ پڑھا، پھر ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’آپ بزرگوں سے عفو کا خواستگار ہوں۔ اگلے شعر کچھ ذرا شوخ ہو گئے ہیں‘‘۔ مولوی محمد نظیر تو چپ رہے، لیکن مولانا صہبائی نے کہا۔ ’’ہاں پڑھو، پڑھو۔ شوخی تو شعر کا نمک ہے‘‘۔
نواب مرزا نے پڑھنا شروع کیاکچھ شان مغفرت سے نہیں دور زاہدوڈوبیں گناہ بادہ کشوں کے شراب میںمولانا صہبائی نے شعر پر ’’ماشاء اللہ، کیا زبان ہے! کیا مضمون ہے!‘‘ وغیرہ ارشاد کیا۔ لیکن مولوی محمد نظیر صاحب صرف مسکراتے رہے۔ اب تو نواب مرزا کی ہمت اور کھلی، اور اس نے کہا۔ ’’حضور، اسی قافیے کو ایک اور پہلو سے نظم کیا ہے۔‘‘ پھر اس نے شعر پڑھااے شیخ جو بتائے مے عشق کو حرامایسے کو دو لگائے بھگو کر شراب میںاس شعر پر مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی بھی اچھل پڑے۔ ’’واللہ کیا جواز شرعی پیدا کیا!‘‘۔
’’محاورے میں تھوڑا سا تصرف کیا تو لطف مزید ہو گیا۔ خوب‘‘۔ صہبائی نے کہا۔
نواب مرزا نے اگلا شعر پڑھاپیر مغاں کی دل شکنی کا رہا خیالداخل ہوا ہوں توبہ سے پہلے ثواب میں’’بھئی تم نے یہ شعر تو حکیم مومن خان صاحب کے رنگ میں کہہ دیا، اگرچہ خوب کہا۔ کسی کی دل شکنی نہ کرنا کار ثواب ہے‘‘۔ مولانا صہبائی نے کہا۔
’’مقطع حاضر خدمت کرتا ہوں‘‘۔ نواب مرزا نے کہا اور شعر پڑھااے داغ کوئی مجھ سا نہ ہو گا گناہ گارہے معصیت سے میری جہنم عذاب میںاس شعر پر دونوں صاحبوں نے یکساں داد دی۔ مولوی صہبائی نے اپنے دل میں کہا کہ اس لڑکے نے طبیعت کیا غضب کی پائی ہے۔ جس منصوبے کو لے کر میں یہاں آیا ہوں وہ بیل اگر منڈھے چڑھ جائے تو اسے حویلی کا اعلیٰ ماحول اور تربیت حاصل ہو جائے گی۔ پھر تو اس کے جوہر قابل اور بھی چمکیں گے…۔ اب فیضی اور ابوالفضل اور ٹوڈرمل نہ سہی، لیکن اس دربار کو بھی اپنے نورتنوں کی قدر معلوم ہے۔ بادشاہ سلامت کا بس نہیں چلتا کہ اپنے دربار کے شعرا و حکما کو لعل و گہر سے نہال کر دیں۔
نواب مرزا نے قرینے سے سمجھ لیا کہ اب مولانا صہبائی اور خالو جان صاحب کو تخلیہ درکار ہو گا۔ لہٰذا وہ آداب و تسلیمات ادا کر کے رخصت ہوا۔ اس کے جی میں چینک تھی کہ جانے سے پہلے فاطمہ کو ایک جھلک دیکھ لیتا، لیکن توبہ ہے وہاں تو پردے کا وہ اہتمام تھا کہ پرندہ پر نہ مار سکتا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں لگاوٹ بھرے لہجے میں ’’خدا حافظ، کل ملیں گے‘‘ کہا اور اپنے گھر کو چل دیا۔
ادھر اندرون حویلی دونوں بیگمات نے حسبِ دستورِ شرفا پہلے تو ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ فاطمہ کا ذکر آیا کہ اب ما شاء اللہ اس کے ہاتھ پیلے ہونے کے دن ہیں۔ نواب مرزا کی طرف بھی اشارہ ہوا لیکن بہت احتیاط سے، کہ کہیں بیچ کی بات کچھ اور نہ ہو۔ یہ سب قصے بیان ہو چکے تو مولوی صہبائی صاحب کی بی بی نے کہا: ’’اے بوا، ہم خدا جانے کتنی دیر سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تمہیں اللہ رکھے سینکڑوں کام ہوں گے۔ پتہ نہیں مولوی نظیر صاحب تشریف لائے کہ نہیں، ان کی ملاقات مولانا جی سے ہو جائے تو میں تم سے رخصت لوں‘‘۔
’’نہیں، نہیں آپ کو آئے ہوئے دیر ہی کتنی ہوئی ہے۔ آئی تھیں تو گھر میں جو روکھا سوکھا میسر ہے اسے نوش کر لیتیں۔ اور ہمارے مولوی صاحب تو گھڑیاں گزریں آ چکے۔ اندر سے پان شربت بھجوایا جا چکا ہے۔ بی نصیبا نے بتایا کہ میاں نواب مرزا شعر سنا رہے ہیں، خوب خوب تعریفیں ہو رہی ہیں‘‘۔ بڑی بیگم نے بھانجے کی شاعرانہ لیاقت کے بارے میں کچھ فخریہ لہجے میں بتایا۔
’’اجی واہ، کیا ہونہار اور خوش اطوار لڑکا ہے۔ اللہ اسے سلامت رکھے…‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭