امت رپورٹ/ محمد زبیر خان
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نواز شریف ہی عملاً ’’ن‘‘ لیگ کی قیادت کریں گے۔ ذرائع کے مطابق رسمی طور پر کسی نائب صدر کو پارٹی کی قیادت سونپ دی جائے گی۔ جس طرح نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد یعقوب ناصر کو پارٹی کا قائم مقام صدر بنایا گیا تھا۔ دوسری جانب بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں حمزہ شہباز بھی عارضی طور پر پارٹی قیادت سنبھالنے کیلئے کوشاں ہیں اور انہوں نے نواز لیگ کے ارکان اسمبلی اور پارٹی کارکنان سے رابطے تیز کردیئے ہیں۔ جبکہ شہباز شریف چند دن پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ان کا بیٹا حمزہ پارٹی کو لیڈ کرے گا۔ تاہم لیگی ذرائع کا اصرار ہے کہ نواز شریف نے پارٹی کی کمان سنبھال لی ہے اور ضمنی الیکشن میں شہباز شریف کی گرفتاری کو کیش کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نواز لیگ کے صدر کی گرفتاری کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کی جانب سے آئندہ دنوں میں وفاقی اور پنجاب کے وزرائے اطلاعات کی پریس کانفرنسوں میں دیئے گئے بیانات کو استعمال کیا جائے گا، جس میں انہوں نے مزید گرفتاریوں کے بارے میں کہا ہے۔ نواز لیگ کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف یہ سب کچھ ضمنی الیکشن میں کامیابی کیلئے کررہی ہے۔ جبکہ نواز شریف پارٹی کو سینیٹر پرویز رشید اور مریم اورنگزیب کے ذریعے چلانے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ ادھر حمزہ شہباز نے گزشتہ روز اپنے تایا نواز شریف سے ملاقات کی اور پارٹی امور چلانے کیلئے مشاورت پر اتفاق کیا، اس موقع پر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پارٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری پر نواز شریف کی بہ نسبت زیادہ کارکنان جمع ہوئے اور احتجاج کیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب میں لیگی کارکنان کی زیادہ ہمدردیاں شہباز شریف کے ساتھ ہیں۔ ادھر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق صوبائی وزیر میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے شہباز شریف کی گرفتاری کو بدترین انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد شہباز شریف کو ڈرا کر مرعوب کرنا ہے، لیکن اوچھے ہتھکنڈے سے اپوزیشن کو مرعوب نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات سے قبل میاں محمد نواز شریف کی گرفتاری اور ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کی جیت کو دیکھ کر حکومت پاگل پن کا شکار ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اپنے بھائی کی رہائی کیلئے سنجیدہ ہیں وہ ان کے ساتھ ملاقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم ملاقات ڈی جی نیب کی اجازت سے مشروط ہے، جس کیلئے نواز لیگ کی قانونی ٹیم نے نیب سے رابطے شروع کردیئے ہیں ۔ اگر ڈی جی نیب نے اجازت دی تو نواز شریف اپنے بھائی سے ملنے کیلئے نیب آفس جائیں گے۔ واضح رہے نیب لاہور نے شہباز شریف کو جمعہ کے روز صاف پانی کیس میں پوچھ گچھ کیلئے طلب کیا تھا، جبکہ انہیں نیب آفس میں آشیانہ کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ شہباز شریف نے چوہدری لطیف کی کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرکے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ ادھر شہباز شریف کی گرفتاری پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن پر پیپلز پارٹی نے دستخط نہیں کیے ہیں۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے اس گرفتاری کی رسمی مذمت کی ہے لیکن پی پی پارلیمنٹ کے فلور پر اس معاملے کو لانے سے گریز کررہی ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ خود ’’ن‘‘ لیگ کی کتنی سیاسی قوت ہے۔ جبکہ نواز لیگ کی سیاسی قوت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیب نے ہفتے کو شہباز شریف کو احتساب میں عدالت میں پیش کیا تو وہاں چند سو لیگی کارکنان نے ان کی بکتر بند گاڑی کوگھیر لیا اور نواز شریف، شہبازشریف کے حق میں نعرے لگائے۔ کارکنان نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر شہباز شریف کے حق میں نعرے درج تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ شہباز شریف کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی بند کی جائے اور صدر نواز لیگ کو فوری رہا کیا جائے۔ لیگی کارکنان نے گزشتہ روز شاہدرہ موڑ پر بھی سڑک بلاک کردی تھی، جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اس موقع پرکارکنان نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اور شریف برادران کے حق میں نعرے لگائے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی گرفتاری کیخلاف احتجاج کرنے والے لیگی کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری نیب قانون کے مطابق ہے۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
لیگی ذرائع کے مطابق نواز لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق نے خود کو گرفتاری کیلئے تیار کرلیا ہے۔ دونوں بھائیوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں گھریلو اور سیاسی معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے متبادل انتظامات کرلئے ہیں۔ جبکہ وکلا کی ٹیم سے بھی مشاورت مکمل کرلی ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں خواجہ سلمان رفیق کا کہنا تھا کہ ’’انہیں اس طرح کا کوئی نوٹس یا اطلاع سرکاری طور پر تو فراہم نہیں کی گئی ہے کہ ان کا اور سعد رفیق کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ تاہم وہ اس طرح کے انتقامی ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں۔ کوئی کرپشن نہیں کی، دامن صاف ہے۔ حکومت جو چاہے کرلے، ای سی ایل میں نام تو کیا جیل میں ڈالے دے، ہم ڈرنے اور جھکنے والے نہیں ہیں۔ ‘‘اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی ریکوزیشن پر پیپلز پارٹی نے دستخط نہیں کیے ہیں۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے اس گرفتاری کی رسمی مذمت کی ہے لیکن پی پی پارلیمنٹ کے فلور پر اس معاملے کو لانے سے گریز کررہی ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ خود ’’ن‘‘ لیگ کی کتنی سیاسی قوت ہے۔ جبکہ نواز لیگ کی سیاسی قوت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیب نے ہفتے کو شہباز شریف کو احتساب میں عدالت میں پیش کیا تو وہاں چند سو لیگی کارکنان نے ان کی بکتر بند گاڑی کوگھیر لیا اور نواز شریف، شہبازشریف کے حق میں نعرے لگائے۔ کارکنان نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر شہباز شریف کے حق میں نعرے درج تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ شہباز شریف کے خلاف سیاسی انتقامی کارروائی بند کی جائے اور صدر نواز لیگ کو فوری رہا کیا جائے۔ لیگی کارکنان نے گزشتہ روز شاہدرہ موڑ پر بھی سڑک بلاک کردی تھی، جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اس موقع پرکارکنان نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف اور شریف برادران کے حق میں نعرے لگائے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی گرفتاری کیخلاف احتجاج کرنے والے لیگی کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری نیب قانون کے مطابق ہے۔ جرم ثابت ہونے پر انہیں 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
لیگی ذرائع کے مطابق نواز لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق نے خود کو گرفتاری کیلئے تیار کرلیا ہے۔ دونوں بھائیوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں گھریلو اور سیاسی معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کیلئے متبادل انتظامات کرلئے ہیں۔ جبکہ وکلا کی ٹیم سے بھی مشاورت مکمل کرلی ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں خواجہ سلمان رفیق کا کہنا تھا کہ ’’انہیں اس طرح کا کوئی نوٹس یا اطلاع سرکاری طور پر تو فراہم نہیں کی گئی ہے کہ ان کا اور سعد رفیق کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ تاہم وہ اس طرح کے انتقامی ہتھکنڈوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں۔ کوئی کرپشن نہیں کی، دامن صاف ہے۔ حکومت جو چاہے کرلے، ای سی ایل میں نام تو کیا جیل میں ڈالے دے، ہم ڈرنے اور جھکنے والے نہیں ہیں۔ ‘‘