زلزلے کو13سال گزرنے کے باوجود تعمیرنو نہ ہوسکی

0

لپوری(نمائندہ امت) آج 8اکتوبرکے زلزلے کی 13ویں برسی منائی جائے گی، ،13سال گزر نے کے باوجود شانگلہ میں زلزلے سے تباہ شدہ اکثر انفراسٹرکچرآج بھی تعمیر نہ ہوسکے،سینکڑوں عمارات کی تعمیرنو،میگاپراجیکٹ کے اعلانات اورزندگی دوبارہ معمول پرلانے کے وعدے حکومتی عدم توجہ کے باعث پورے نہ ہوسکے۔ 8اکتوبر2005 کے تباہ کن زلزلہ میں ضلع شانگلہ بہت زیادہ متاثر ہو ا تھا،اس ہولناک زلزلے میں 479قیمتی جانیں چلی گئیں ،1715افراد زخمی ہوئے اور 20693رہائشی مکانات مکمل طور پر ملیامیٹ ہوئے ، جبکہ ہزا روں مکانات کوجزوی نقصان پہنچا، بحالی اور دوبارہ تعمیر نو کیلئے پوری دنیا سے امدادی کاروائی شروع ہوئی تو صوبہ خیبر پختونخوا کے شمالی دامن میں واقع اس بد نصیب ضلع کا نمبر سب سے آخری تھا کیونکہ ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، بٹگرام اور کشمیر بحالی کاموں میں سبقت لے گئے۔ اس وقت شانگلہ میں 700سکولوں میں 208سکول مکمل طور پر تباہ ہوئے دس سال گزرنے کے بعد 140سکول تو تعمیر کئے گئے ،50سکولوں پر صوبائی حکومت کے زیر انتظام تعمیراتی کام جاری ہے لیکن 18سرکاری سکولز آج بھی تعمیر کیلئے منتظر ہیں اور وہاں کے طلبہ و طالبات کھلے آسمان شدید موسم کے باوجود برائے نام تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔زلزلے میں تباہ ہونے والے سکولوں میں 170پرائمری سکولز،18مڈل سکولز ،16ہائی سکول اور 03بڑے کالج شامل ہیں جس میں گورنمنٹ ڈگری کالج چکیسر13سال گزرنے کے باوجود ٹینڈر نہ ہوسکا جبکہ گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج دندیٴ اور پورن مکمل ہوکر محکمے کے حوالہ کردیئے گئے۔بعض سکولوں کو کرایہ کے مکانات میں منتقل کئے گئے ہیں جن میں ایک طرف تو وہ سکول کے طرز پر سہولیات اور ماحول سے عاری ہیں تو دوسری طرف حکومتی خزانے سے ماہانہ لاکھوں روپے سکولوں کے کرایہ کے مد میں خرچ ہوتے ہیں ، اور بعض سکولوں کے بچے تا حال شانگلہ جیسے سخت اور شدید موسم میں ٹینٹوں میں بیٹھ کر تعلیمی پیاس بجھانے پر مجبور ہیں۔ زلزلے میں 26 ہسپتال مکمل طور پر تباہ ہوئے جن میں سے 21کی تعمیر اب مکمل ہوچکی ہے ،ایک زیر تعمیر ہے جبکہ 4فندز کی عدم دستیابی کی وجہ سے تعمیر نہ ہوسکے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More