کابل (امت نیوز) طالبان نے افغانستان کے صوبہ میدان وردگ کے ضلع سیدآباد پر قبضہ کر لیا۔ لڑائی میں سید آباد کے ضلعی پولیس سربراہ جنرل سیدنضراب شاہ ہاشمی سمیت 35 پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ صوبہ قندہار کے ضلع ارغستان میں طالبان کے حملے میں 10 سرحدی پولیس اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہو گئے جبکہ واشنگٹن کے معروف ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ امریکا 17 سال طویل جنگ کے باوجود افغانستان میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوگیا جبکہ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ عسکریت پسندی کے حامی ممالک افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔تفصیلات کے مطابق ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات طالبان نے ضلعی مرکز پر اطراف سے حملہ کیا اور چند گھنٹےکی لڑائی کے بعد سید آباد ضلع پر قبضہ کر لیا۔سید آباد میں عام شہریوں نے افغان میڈیا کو بتایا کہ ضلع مکمل طور پر سقوط ہو گیا اور طالبان نے ضلعی ہیڈکوارٹرز کے مرکز،پولیس ہیڈکوارٹرز اور دیگر اہم مقامات اور تنصیبات پر قبضہ کر لیا ہے۔ضلع کےبیشترسرکاری گاڑیوں،ٹینکوں اور ہلکے اور بھاری ہتھیاروں پر بھی طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ کابل، قندہار قومی شاہراہ پر واقع ضلعی مرکز، پولیس ہیڈکوارٹر، اینٹلی جنس آفس اور آس پاس دفاعی چوکیوں پر طالبان نے ہلکے و بھاری ہتھیاروں سے ہفتہ اوراتوار کی درمیانی شب اطراف سے ایک بڑا حملہ کیا،جس کے نتیجے میں پورے ضلع پر قبضہ کر لیا گیا اور درجنوں اہلکار ہلاک گئے، جن میں سے ڈسٹرکٹ پولیس چیف کمانڈر سیدنضراب شاہ، سیکورٹی آفسر عباس، 2 حکومت نوازجنگجو کمانڈر شمسو اور سیفو سمیت 35 اہلکاروں کی لاشیں تاحال وہاں پڑی ہوئی ہیں اور ساتھ ہی 10 اہلکار گرفتار بھی کئے گئے۔ 60 کلاشنکوفیں ، 8 اینٹی ایئرکرافٹ گنیں، ایک مارٹرتوپ، 4 فوجی ٹینک، 4فوجی رینجر گاڑیاں، اسلحے سے بھرے 3 کینٹینرز اور دیگر فوجی سازوسامان پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔کابل قندہار شاہراہ بھی ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ۔جبکہ ضلع کو بجلی کی سپلائی بھی معطل کر دی گئی ہے۔صوبائی گورنر کے ترجمان عبد الرحمن مینگل نے طالبان حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ایک گروپ نے رات گئے سید آباد ضلع پر حملہ کیا تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی فورسز نے طالبان کا حملہ پسپا کر دیا ہے اور ضلع سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ادھر قندہار کے ضلع ارغستان میں طالبان اور افغان سرحدی پولیس کے درمیان لڑائی میں 10 اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہو گئے۔قندہار پولیس سربراہ کے ترجمان ضیا درانی نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان نے رات کوارغستان کے جھاگیر علاقے میں سرحدی پولیس کی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا لڑائی کے دوران 10 پولیس اہلکار ہلاک اور 7 زخمی ہوئے۔طالبان نے ہفتے کو میدان وردک کے پڑوسی صوبے غزنی کے بعض علاقوں پر بھی چڑھائی کی جسے مقامی حکام نے ناکام بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔گورنر غزنی کے ترجمان محمد عارف نوری نے کو بتایا ہے کہ طالبان کے ساتھ جھڑپوں میں اب تک ایک فوجی اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔دریں اثنا ادھرواشنگٹن کے معروف ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ امریکا 17 سال طویل جنگ کے باوجود افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کیے گئے سروے میں زیادہ تر افراد نے اپنی رائے دی ہے کہ امریکا طالبان اور القاعدہ کے خلاف افغانستان میں جاری جنگ میں ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے۔گزشتہ ماہ 18 سے 24 ستمبر تک ہونے والے سروے میں 49 فیصد بالغ افراد کا کہنا ہے کہ امریکا 17 سال گزرنے کے باوجود اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔سروے کے مطابق 35 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان میں کامیاب ہوگیا ہے، جبکہ 16 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ امریکا کو کامیابی ملی ہے یا ناکامی ملی ہے۔اسی طرح 2009 سے 2011 کے درمیان جب سروے کیے گئے تھے اور لوگوں سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا امریکا افغانستان میں کامیاب ہوجائے گا تو اکثریت کا ماننا تھا کہ اسے کامیابی مل جائے گی۔تاہم جب یہ سروے 2014 اور 2015 کے درمیان کیا گیا تو اس کے نتائج مثبت سے زیادہ منفی میں تبدیل ہوچکے تھے۔پیو ریسرچ سینٹر کے حالیہ سروے کے مطابق ریپبلکنز اس معاملے میں پُر امید نظر آتے ہیں جبکہ اس کے برعکس اور ڈیموکریٹس کو اس سے امیدیں کم ہیں۔سروے کے مطابق 48 فیصد ریپبلکنز کا ماننا ہے کہ افغانستان میں امریکی مشن کامیابی سے ہمکنار ہوگا، جبکہ صرف 28 فیصد ڈیموکریٹس اپنے حریفوں کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔3 سال قبل باراک اوباما کے دورِ اقتدار میں جب یہ سروے کیا گیا تھا تو 42 فیصد ڈیموکریٹس نے جنگ کی جیت کی امید کا اظہار کیا تھا جبکہ 29 فیصد ریپبلکنز ان کے حامی نظر آئے تھے۔افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت اس کی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ بن گئی ہے، تاہم اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکیوں کی آرا بھی ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے بارے میں تقسیم کا شکار ہے۔سروے کے مطابق، 45 فیصد امریکی کہہ رہے ہیں کہ امریکا نے دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان پر حملے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا، لیکن حیران کن طور پر 39 فیصد امریکی مانتے ہیں کہ واشنگٹن اور پینٹاگون نے ایسا کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ابتد امیں امریکیوں کی بڑی تعداد یہ مانتی تھی کہ واشنگٹن کا افغانستان پر چڑھائی کرنے کا فیصلہ درست تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ آرا منفی ہوتی چلی گئی۔ریپنلکنز نے ڈیموکریٹس کے مقابلے میں مستقل مزاجی کے ساتھ امریکی مشن کو درست قرار دیا اور اس کی حمایت کی ہے جبکہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اس میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔تقریباً 66 فیصد ریپبلکنز اور 31 فیصد ڈیموکریٹس افغانستان میں طاقت کے استعمال کے حامی ہیں، جبکہ 21 فیصد ریپبلکنز اور 53 فیصد ڈیموکریٹس اس کے مخالف ہیں۔ادھر افغان چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ نے انڈونیشیا سنٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے ان ممالک پر تنقید کی ہے جو عسکریت پسندی کی حمایت کر رہے ہیں اور کہا ہے کہ یہ ممالک افغانستان کے پائیدار امن و استحکام کے حصول کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ ممالک لڑائی بند کرانے پر طالبان کو آمادہ کرنے کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔