محمد قاسم
امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان کے معدنی ذخائر پر قبضے کا مشترکہ منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ پہلے مرحلے پر امریکی کمپنی سینٹرل لمیٹڈ نے بدخشان اور سرائے پل میں موجود سونے اور تانبے کی کانوں کا معاہدہ کیا ہے، جس کیلئے سرمایہ برطانوی بینک جے پی مورگن فراہم کرے گا۔ افغان حکومت کی جانب سے یہ معاہدہ برطانیہ اور امریکہ کی ایما پر واشنگٹن میں کیا گیا، جس پر افغان وزیر نرگس نے دستخط کئے۔ اس موقع پر افغان وزیر خزانہ قیوم فہیمی اور افغان سفارتخانے کے دیگر افسران بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق یہ معاہدہ 2012ء میں امریکا نے تیار کیا تھا، تاہم اس وقت صدر حامد کرزئی کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہ معاہدہ نہ ہو سکا۔ بدخشاں میں سونے اور سرائے پل کے علاقے میں تانبے کی کانوں کی خرید و فروخت کا یہ سب سے بڑا معاہدہ ہے۔ دوسری جانب افغان اراکین پارلیمان اور حزب اسلامی نے یہ معاہدہ عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ارکان پارلیمان اور حزب اسلامی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سونے اور تانبے کی کانیں افغانستان میں ہیں، جبکہ معاہدہ واشنگٹن میں ہو رہا ہے، جس سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 2012ء میں ان کانوں کے ٹینڈر میں ترکی اور افغان کمپنیوں نے زیادہ بولی دی تھی، جس پر ترکش افغان مائننگ کو بدخشاں میں سونے اور افغان گولڈ اینڈ منرل کو بلخاب میں واقع کانوں کی لیز دی گئی تھی۔ ترکش افغان مائننگ کمپنی کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اب تک سونے کی کانوں پر پچیس ملین ڈالر کا خرچہ کیا جا چکا ہے، جبکہ افغان گولڈ اینڈ منرل نے بلخاب کی کانوں پر 54 ملین ڈالر سے زیادہ اخراجات کئے ہیں۔ امریکہ کی کمپنی سینٹرل لمیٹڈ نے نہ صرف ان دونوں کمپنیوں کو شیئر دینے کی پیشکش کی ہے بلکہ حصہ داری دینے کی پیشکش بھی کی ہے گئی۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ سرمایہ فراہم کرنے والے برطانوی بینک جے پی مورگن کے سابق سربراہ نے برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک پر مشتمل سینٹرل لمیٹڈکمپنی بنائی ہے، جو پوری دنیا میں برطانوی اور امریکی حکومتوں کی ایما پر تیل اور سونے کے ذخائر پر سرمایہ کاری کرتی ہے۔ تاہم یہ کمپنی ان ممالک میں سرمایہ لگاتی ہے، جہاں کشیدگی ہو اور یہ کہ معدنیات کو غیر قانونی طور پر امریکہ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں مائننگ ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان وزیر سعادت منصور نادری کو اسی معاہدے پر استعفیٰ دینا پڑا تھا، کیونکہ یہ معاہدہ غیر قانونی ہے۔ لیکن موجودہ کابل حکومت نے پارلیمانی انتخابات سے 13 روز قبل یہ معاہدہ کر کے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ یہ معاہدہ پانچ سال کیلئے تھا، جو 2017ء میں ختم ہو گیا ہے۔ لیکن سینٹرل لمیٹڈ کے سربراہ اور جے پی مورگن کے سابق سربراہ براڈلی بارنٹ نے امریکی اور برطانوی حکومتوں کو اعتماد میں لے کر دوبارہ معاہدہ کی تجدید کر دی ہے۔ اس معاہدے سے عوام اور حتیٰ کہ پارلیمان کو بھی بے خبر رکھا گیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس معاہدے کو افغان صدر منظور نہ کریں۔ اس منصوبے پر سینٹرل لمیٹڈ نے ڈھائی ارب ڈالر سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاہم افغان مائننگ ایسوسی ایشن کے عہدیدار کے مطابق اس وقت سینٹرل لمیٹڈ سمیت افغان وار لارڈز سے وابستہ 1400 کمپنیاں افغانستان سے غیر قانونی مائننگ کر کے افغانستان کی قیمتی دولت بیرونی ممالک کو منتقل کر رہے ہیں۔ ادھر معاہدے پر دستخط کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد افغان طالبان کا کہنا ہے کہ تمام غیر قانونی کان کنی کرنے والی کمپنیاں افغانستان میں معدنیات نکالنے پر کام بند کردیں۔ کیونکہ افغان حکومت عوامی دولت کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ طالبان بدخشاں اور بلخاب میں سینٹرل لمیٹڈ کو کام کرنے نہیں دیں گے۔ طالبان نے واضح کیا ہے کہ جے پی مورگن کو مختلف ناموں سے افغانستان میں غیر قانونی مائننگ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ افغانستان کی معدنی دولت پر افغان عوام کا حق ہے۔ جنگ کے دوران جن کمپنیوں نے غیر قانونی مائننگ کی، انہیں بھی اس کا حساب دینا ہو گا۔ جن وزرا اور نمائندوں نے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، وہ قومی خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہیں اس کام کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ واشنگٹن میں بیٹھ کر افغان قوم کے فیصلے کریں۔ طالبان ان معاہدوں کو طاقت کے زور پر رکوائیں گے۔ لہذا جے پی مورگن جیسے بینک افغانستان میں سرمایہ کاری سے باز رہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں جے پی مورگن کے علاوہ جندال گروپ اور چائنا نے بھی کابل سمیت مشرقی افغانستان میں اربوں ڈالر کی کانیں لیز پر لی ہیں، لیکن وہاں کام شروع کرنے میں اب تک وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی حکام سمیت اتحادی افواج اور بعض این جی اوز نے افغانستان سے قیمتی دھات خاص کر موبائل بیٹریوں میں استعمال ہونے والی لیتھیم دھات کو بڑے پیمانے پر غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک منتقل کیا ہے۔ جبکہ شوریٰ نظار اور شمالی اتحاد کے جنگجو کمانڈرز افغانستان سے قیمتی دھات اسمگل کرنے میں ملوث رہیں اور ان کا زیادہ انحصار فرانسیسی کمپنیوں پر ہے۔ شمالی اتحاد کے سابق سربراہ احمد شاہ مسعود کے فرانسیسی کمپنیوں سے خصوصی تعلقات تھے۔ فرانس کی کمپنیوں نے اس وقت بھی شمالی اتحاد کی مدد کی تھی۔ جبکہ احمد ضیا مسعود کی فرانس میں وسیع جائیداد بھی موجود ہے۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلی بار امریکہ اور برطانیہ مل کر افغانستان کی کانوں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے۔٭