آسیہ ملعونہ کیس-عاشقان رسول نے سپریم کورٹ سے امیدلگالی

0

نمائندہ امت
توہینِ شان رسالت میں سزا یافتہ آسیہ ملعونہ کیس کی تقریباً دو سال بعد آج (پیر) کو سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے، جسے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ عاشقان رسول کو امید ہے کہ معزز عدالت ملعونہ کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھے گی اور اس فیصلے پر جلد عمل بھی ہوگا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس مقدمے میں ملعونہ آسیہ مسیح کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ یہ بہت اہمیت کا حامل کیس ہے۔ عدالت عالیہ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے، اس لئے عدالت عظمیٰ کے لئے اس کیس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ ان ماہرین کے مطابق اگر ممتاز قادری کے خلاف فیصلہ آسکتا ہے تو پھر توہین شان رسالت کی اس مجرمہ کے خلاف بھی فیصلہ آنا چاہئے، جس کے جرم کے تمام تر ثبوت موجود ہیں اور وہ پنچائیت، پولیس کے علاوہ عدالت میں بھی اپنا جرم تسلیم کر چکی ہے۔ آسیہ مسیح کیس کے مدعی، وکیل، تحریک لبیک پاکستان کے رہنما اور غازی ممتاز قادری شہید کے والد کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان بڑے اہم اور دور رس اقدامات کر رہے ہیں۔ امید ہے وہ اس کیس میں بھی انصاف کے تقاضے پورے کریں گے، جس سے پوری امت مسلمہ مطمئن ہوگی۔ گستاخوں کو دنیا بھر میں سخت پیغام جائے گا اور رہتی دنیا تک ملعونہ کو سزا دینے والی معزز عدالت کا نام روشن رہے گا۔
واضح رہے کہ ملعونہ آسیہ مسیح کی گرفتاری کے بعد مقتول سلمان تاثیر نے بطور گورنر پنجاب اس کی حمایت کی اور جیل میں اس سے ملاقات بھی کی تھی۔ جس کے بعد ممتاز قادری شہید نے سلمان تاثیر کو اپنی سرکاری گن سے 2011ء میں قتل کر دیا تھا۔ ممتاز قادری شہید پر قتل کا مقدمہ چلا اور اس قتل کیس کا فیصلہ کرنے میں کوئی زیادہ تاخیر نہیں کی گئی۔ تاہم ملعونہ آسیہ مسیح کا کیس آٹھ سال سے ابھی تک زیر سماعت ہے۔ ملعونہ آسیہ کیس کے مدعی قاری محمد سالم، وکیل غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ، ممتاز قادری شہید کے والد ملک بشیر اعوان اور تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی ناظم نشر و اشاعت و ترجمان پیر محمد اعجاز اشرفی کو امید ہے کہ آسیہ جو اب ملزمہ نہیں مجرمہ ہے، سپریم کورٹ بھی اس کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے قانون کی بالادستی قائم کرے گی۔
تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی ترجمان پیر محمد اعجاز اشرفی نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ممتاز قادری شہید نے سلمان تاثیر کو ملعونہ آسیہ کے جرم کے کافی عرصہ بعد قتل کیا۔ لیکن غازی ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکا کر امر کر دیا گیا اور وہ رہتی دنیا تک عاشقان مصطفیٰ کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’295 سی کے تحت کئی ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں، لیکن اب تک کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اہم اقدامات اور فیصلے کر رہے ہیں۔ میں ان کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہوں کہ یہ اسلامی جہموریہ پاکستان ہے، جس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی پر امن طریقے سے رہ رہے ہیں۔ آسیہ ملعونہ کو اس کی بدزبانی، بدکلامی اور گستاخی کی وجہ سے سزائے موت قانون کے مطابق سنائی گئی ہے۔ اس کی سزا پر عمل درآمد کر کے قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ اس فیصلے سے عدالتوں کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا، قانون کی بالادستی کا تصور نمایاں ہوگا، مسلمانان عالم مطمئن اور پر سکون ہوں گے، جبکہ رسول اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو بھی سخت پیغام جائے گا‘‘۔ ایک سوال پر پیر محمد اعجاز اشرفی کا کہنا تھا کہ ’’ہم آسیہ معلونہ کو فی الفور سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی عالمی دباؤ کو خاطر میں ہرگز نہ لایا جائے اور مسلمانوں کے جذبات کی قدر کی جائے‘‘۔
غازی ملک ممتاز قادری شہید کے والد ملک محمد بشیر اعوان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’آسیہ ملعونہ کی سزا پر بہت پہلے عمل ہوجانا چاہئے تھا۔ تاہم عدالتوں میں یہ کیس کیوں تاخیر کا شکار ہوا، اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس کے ہاتھوں اس گستاخ مجرمہ کی سزا پر عمل کرانا ہے۔ میرے بیٹے کی شہادت بھی آسمانی فیصلہ تھا۔ اسے جو اعزاز نصیب ہوا، اس پر ہمیں فخر ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں غازی شہید کے والد محترم ملک محمد بشیر نے کہا کہ آسیہ ملعونہ کا کیس اب دوبارہ زیر سماعت آنا خوش آئند ہے۔ اس کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رہنا چاہئے، تاکہ نہ صرف یہ کہ مجرمہ اپنے انجام کو پہنچے، بلکہ دیگر ایسے لوگوں کو بھی عبرت ہو اور گستاخوں کو سخت پیغام جائے۔
سزائے موت کی مجرمہ آسیہ مسیح کے خلاف کیس کے مدعی قاری محمد سالم نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میری دعا ہے کہ مجرمہ جلد از جلد اپنے انجام کو پہنچے۔ اللہ عدالتوں کے جج صاحبان کو بھی ایسا فیصلہ دینے کی توفیق دے، جو مسلمانوں کے دلوں کی آواز ہے‘‘۔ قاری محمد سالم اب بھی اسی گاؤں میں مقیم ہیں، جس گاؤں میں ملعونہ آسیہ نے گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ جبکہ اس مجرمہ کا خاندان اپنی مرضی سے اس واقعے کے دو سال بعد گائوں سے چلا گیا تھا۔ قاری محمد سالم کا کہنا ہے کہ ’’مجھ پر کسی ادارے یا افراد نے اس کیس کے حوالے سے کبھی دباؤ نہیں ڈالا کہ کیس واپس لوں یا عدم دلچسپی کا اظہار کرکے خاموش ہوجاؤں۔ البتہ جب 2009ء میں اس ملعونہ کا جرم ثابت ہونے پر اسے سزائے موت سنائی گئی تو غیر ملکی میڈیا کے بعض کارندے اشاروں کنایوں میں دستبردار ہونے کی باتیں کرتے تھے۔ لیکن میں نے ہر شخص پر بالکل واضح کر دیا کہ مقدمے سے دستبردار ہونے یا خاموش رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔
اعلیٰ عدالتوں میں قاری محمد سالم کی جانب سے ختم نبوت لائیرز موومنٹ کے چیئرمین غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ پیش ہو رہے ہیں۔ آج سپریم کورٹ میں بھی وہ پیش ہوں گے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے غلام مصطفیٰ چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ میں اس کیس کی آخری دفعہ سماعت تیرہ اکتوبر 2016 کو ہوئی تھی۔ ہمارے لئے یہ خوش آئند اور اچھی خبر ہے کہ تقریباً دو سال بعد اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال میں مجرمہ آسیہ مسیح کے وکلائے صفائی کے پاس کہنے کو اب کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے پاس جو دلائل تھے، وہ ہائی کورٹ میں بھی دے چکے ہیں۔ ملزمہ خود عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کرچکی ہے۔ ابھی اس مقدمے کی ابتدائی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ نچلی عدالتوں اور ہائی کورٹ کی طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی ہم اپنا کیس اور موقف منوانے میں کامیاب ہوں گے‘‘۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More