ایس اے اعظمی
بھارت بھر میں مساجد کے خلاف دہشت گردی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں تین مساجد کو شہید، نصف درجن کو جزوی شہید اور درجن بھر مساجد کے مینار شہید کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کو لائوڈ اسپیکرز پر دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ مساجد کے قیام، تعمیر اور تزئین و آرائش کا کام ترک کر دیں اور میدان یا کھلے مقامات پر نماز جمعہ کی ادائیگی سے باز آجائیں، ورنہ ان کو قتل کر دیا جائے گا۔ ادھر راجستھان کے ضلع الور کے علاقہ شاہجہاں پور کی مسجد کا 30 فٹ اونچا تاریخی مینار سینکڑوں ہندوئوں نے جمع ہوکر پولیس سرپرستی میں شہیدکردیا ہے اور مسجد کمیٹی کے سربراہ اور مینار کو شہید ہونے سے بچانے کیلئے سامنے کھڑے ہونے والے ڈاکٹر فتح میواتی کو تلواروں کے وار سے شہیدکرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ ان کو گہرے زخم آئے ہیں۔ جبکہ پولیس نے دونوں حملہ آوروں کو گرفتار تک نہیں کیا اور وہ تلواریں لہراتے ہوئے فرار ہوگئے۔ ایک پریس کانفرنس میں ’’اکھیل بھارتیہ ہندو کرانتی دَل‘‘ کے نیشنل جنرل سیکریٹری راجیو متل نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت بھر کی ہندو تنظیموں کی مدد سے تمام مساجد کو کنٹرول کیا جائے گا اور مندروں سے اونچائی والے میناروں کو منہدم کردیا جائے گا۔ بھارت بھر میں جن انتہا پسند ہندو تنظیموں نے مساجد کیخلاف مہم کا آغاز کیا ہے، ان میں اکھنڈ بھارت مورچا، بجرنگ دل، وی ایچ پی، راما سینا، ہندو دھیا سینا وغیرہ شامل ہیں۔ اب تک انتہا پسند مقامی ہندوئوں کے ساتھ مل کر 100 مساجد کو مقفل کروا چکے ہیں۔ مقامی صحافی صابر قاسمی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولیس اسٹیشن کے انچارج نے روایتی ہندو عیاری سے کام لیتے ہوئے مینار شہید کرنے کی واردات سے عین قبل مسلمانوں پر گرفتاری اور دہشت گردی کے مقدمہ کا دبائو بنا کر یہ تحریر لکھوالی ہے کہ مینار قبلہ کے رُخ کے لحاظ سے غلط سمت میں تعمیر ہوا ہے، اس لئے دوبارہ تعمیر کیلئے اس کو منہدم کیا جائے گا۔ جمعیت علمائے ہند کے ضلعی سربراہ حنیف الوریٰ نے اس سنگین معاملے پر توجہ مبذول کروائی ہے اور ایس ایچ او سمیت ڈپٹی کلکٹر سے ملاقاتیں کی ہیں لیکن اس کے باوجود ہندوئوں نے مسجد پر حملہ کرکے مینار شہید کر ڈالا ہے اور امام و خطیب کو قتل کردینے کی دھمکیاں دی ہیں اور لائوڈ اسپیکرز پر مقامی اور مضافاتی علاقوں میں مسلمانوں کا نام لے لے کر دھمکیاں دی ہیں کہ اگر جامع مسجد شاہجہاں پور/ الور میں نماز جمعہ کیلئے کوئی دوسرے علاقے سے آیا تو اس کو کاٹ ڈالا جائے گا۔ مسلمان لکھاری صابر قاسمی نے بتایا ہے کہ جامع مسجد شاہجہاں پور ضلع الور میں یہ جامع مسجد کافی بڑی ہے اور سینکڑوں نمازیوں کیلئے کفایت کرتی ہے۔ جبکہ دوسری جامع مسجد 30 کلومیٹر کے فاصلہ پر کوٹ پوتلی میں ہے اور ایک اور جامع مسجد 40 کلومیٹر کے فاصلہ پر ریواڑی میں واقع ہے جس کی وجہ سے اطراف دس سے بیس کلومیٹر پر رہائش پذیر مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے دور دور سے آتے تھے، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی خواہر تنظیموں کے غنڈوں کی جانب سے دی جانیوالی دھمکیوں اور مینار کی شہادت کی خبر پھیلنے کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ نارنول جامع مسجد کے امام و خطیب حافظ حنیف گورال نے اُمید ظاہر کی ہے کہ جلد نمازیوں کی بڑی تعداد نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے ادھر کا رُخ کرے گی۔ ادھر ریاست بہار کے سمستی پور ضلع میں گیارہ ماہ کے بعد ایک بار پھر مقامی ہندوئوں نے مسجد کو شہید کرنے کی پلاننگ کی ہے اور سرسیاہ گائوں میں مسجد کے گرد زعفرانی جھنڈے لگا کر پوجا پاٹھ کا آغاز کردیا، جس پر مقامی مسلمان رہنما اور کونسلر انور اقبال نے پولیس کو مطلع کیا اور ایس پی سمستی پور، ایس ڈی ایم روسڑا، حسن پور پولیس اسٹیشن کے انچارج سمیت دیگر افسران اور جمعیت العلمائے ہند کے مقامی رہنمائوں کو مطلع کیا، جس کے بعد زعفرانی پرچم ہٹوائے گئے۔ لیکن اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ پولیس نے شرپسندوں کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔ واضح رہے کہ روسڑا ضلع میں گزشتہ برس پانچ مساجد کو نذر آتش کیا جا چکا ہے اور تین کو جزوی شہید کیا گیا۔ ادھر دہلی کے نواح میں گڑگائوں میں ایس ڈی سنجیو سنگلا نے بتایا ہے کہ پانچ سیکٹرز میں موجود مساجد کے لائوڈ اسپیکرز اُتارے جاچکے ہیں اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہر اس مسجد سے لائوڈ اسپیکرز اُتارے جائیں گے جہاں کے مقامی (ہندوئوں)کی جانب سے انہیں شکایات موصول ہوئی ہیں۔ جبکہ مزاحمت کرنے والوں کو جیل بھیجا جائے گا۔ اس مہم کے نتیجہ میں گڑگائوں کی معروف شیتلا ماٹا کالونی کی جامع مسجد کو حکومت نے بند کردیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسجد بھارتی افواج کے مسلح ایمونیشن ڈپو کے تین سو میٹر کے فاصلہ پر موجود ہے جس سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ راجستھان کے ضلع جھالا وار کی تین مساجد اس وقت بھی 15 برس سے ہندوئوں کے قبضہ میں ہیں، جن پر2003 میں بجرنگ دل کے غنڈوں نے قبضہ کیا تھا۔ مدھیا پردیش میں بھی تین مساجد کو تالا بندی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن کو ہندوئوں کے دبائو کے نتیجہ میں مقامی پولیس نے مقفل کردیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ مسجد کی آذان کے شور سے مقامی لوگ پریشان ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے اس سلسلہ میں کورٹ سے رجوع کیا ہے لیکن پولیس نے اس قانونی جنگ کی پاداش میں مسلمانوں کیلئے مسجد کے دروازے بند کردیئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post