چھ سالہ چینی بچی باپ کی سرپرست بن گئی

0

ابو صوفیہ
چینی باشندوں کے عزم و ہمت کی داستانیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایک ننھی چینی بچی ہے، جو اپنے گھر کی واحد کفیل بنی ہوئی ہے۔ گوناگوں مشکلات سے دوچار اس باہمت بچی کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ جیا جیا اپنے مفلوج والد کی تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرتی ہے۔ یو اے ای سے شائع ہونے والے اخبار ’’البیان‘‘ نے جیاجیا نامی 6 سالہ بچی پر ایک دکھ بھری اسٹوری شائع کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی داستان وائرل ہونے کے بعد کئی عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی جیاجیا کی ہمت اور والد کے ساتھ حسن سلوک کو داد دیتے ہوئے اس پر رپورٹس شائع کی ہیں۔ ننھی جیاجیا کی ویڈیوز اور تصاویر نے کروڑوں افراد کے دلوں کو موم کردیا ہے، جب اس کی اپنے والد کی خدمت کرتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ اس بچی کو لوگوں نے بہت سراہا۔ جیاجیا کا تعلق چین کے خود مختار علاقے ننگ شیا سے ہے۔ یہ بچی پوری ہمت سے اپنے والد کی مدد کرتی ہے، جو چار سال قبل حادثے کے شکار ہوکر معذور ہوگیا تھا۔ 2014ء میں 38 سالہ تیان ہائی چینگ کی زندگی اس وقت تاریک ہوگئی، جب ایک حادثے کے بعد وہ چلنے پھرنے سے بالکل معذور ہوگیا، جس کے بعد اس کا روزگار بھی ختم ہوگیا۔ اس کے بعد تیان کی بیوی نے اپنے بیٹوں کو ساتھ لیا اور 6 سالہ بیٹی باپ کے پاس چھوڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ باپ بیٹی کو سنبھالتا، چھ سالہ بچی نے خود اپنے والد کا سہارا بنتے ہوئے گھر کی صفائی، کھانا پکانے اور والد کی خدمت کی ذمے داری اپنے سر لے لی۔ ویڈیوز اور تصاویر میں ننھی بچی کو والد کے زخم صاف کرتے، وہیل چیئر پر بٹھاتے، کھانا کھلاتے اور رات کو کتاب پڑھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنی بچی کی اس خدمت سے تیان مایوسی سے نکل کر پُرامید ہو چکا ہے۔ اب اسے امید ہے کہ وہ جلد کچھ بہتر ہوکر اپنی بیٹی کے کاندھوں کی ذمہ داری کم کرسکے گا۔ والد نے اپنی بیٹی کی تصاویر اور ویڈیو چینی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں تو شروع میں لوگوں نے خاص نوٹس نہیں لیا، لیکن ایک ویڈیو وی چیٹ پلیٹ فارم پر اپ لوڈ ہونے کے بعد اس گھرانے کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی۔ صارفین نے بچی کے عزم وہمت کی بہت تعریف کی ہے۔ اس بچی کے ناتواں کندھوں پر صرف معذور باپ کو سنبھالنے کا بوجھ نہیں ہے، بلکہ دادای اماں بھی اسی کے سہارے جی رہی ہے۔ جبکہ دادی کی ماں بھی اسی کے ساتھ رہتی ہے۔ جس کی عمر 92 سال ہے۔ باپ کے معذور ہونے کے بعد ان دونوں بوڑھیوں کی کفالت کا بوجھ ننھی جیاجیا پر آن پڑا۔ یہ ناقابل برداشت بوجھ جب جیاجیا کے کندھوں پر پڑا تو اسے اسکول بھی چھوڑنا پڑا۔ وہ سارا دن گھرداری کے امور نمٹاتی ہے، اس لئے وہ نہ تو اسکول جا سکتی ہے اور نہ کھیل کود کا سوچ سکتی ہے۔ مگر اب رفتہ رفتہ وہ اس کی عادی بھی ہو چکی ہے۔ جیاجیا کو صرف گھر کے امور ہی نمٹانا نہیں پڑتے، بلکہ باہر جاکر معذوروں کیلئے اشیائے خورونوش کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔ اگر گھر میں صرف کھانا پکانے اور صفائی ستھرائی کی بات ہوتی تو شاید اس کیلئے یہ اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا۔ مگر اس گھر میں تو 2 بیمار بوڑھیاں بھی ہیں۔ ان دونوں کو جوڑوں کی تکلیف لاحق ہے۔ اس لئے یہ دونوں گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹانے سے بھی قاصر ہیں، بلکہ نہانے دھونے اور واش روم جانے میں بھی وہ اس معصوم بچی کے سہارے کی محتاج ہیں۔ جبکہ بڑی دادی کے ہاتھوں میں بھی رعشہ ہے، اس لئے جیاجیا کو اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا بھی کھلانا پڑتا ہے۔ جبکہ جیاجیا اپنی دونوں دادیوں کی صفائی کا بھی بھرپور خیال رکھتی ہے، وہ روزانہ پانی گرم کر کے ان کے پائوں دھوتی ہے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر واش روم لے جاتی ہے۔ جیاجیا ’’زونائی‘‘ نامی جس علاقے میں رہتی ہے، اگر یہ متمدن شہر ہوتا تو شاید اس کیلئے گھریلو ذمہ داریاں نبھانا اتنا مشکل نہ ہوتا، مگر یہ تو چاروں اطراف سے دشوار گزار پہاڑوں میں گِھرا ہوا علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ کاشتکاری کرتے ہیں۔ جیاجیا بھی صبح بڈھیوں کو ناشتہ وغیرہ دے کر پڑوسیوں کے کھیتوں کی جانب نکلتی ہے۔ جہاں ان کے ساتھ کچھ کام کرتی ہے، جس کے عوض وہ لوگ اسے سبزیاں دیتے ہیں۔ جنہیں لے کر وہ گھر آتی ہے اور کھانا پکا کر گھروالوں کو کھلاتی ہے۔ پھر وہ گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھونے وغیرہ کے کاموں میں لگ جاتی ہے۔ دن بھر کی اس مشقت میں جیاجیا اپنا بچپن کھو چکی ہے اور تھکاوٹ سے چور ہو کر وہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق باہمت بچی نے بڑے احسن انداز سے اپنے گھر کو سنبھالا ہوا ہے۔ تمام گھریلو امور کی انجام دہی کے دوران وہ کسی شکوہ شکایت کا اظہار کے بجائے ہنستی رہتی ہے۔ اسے صبح سویرے جاگنا پڑتا ہے۔ پہلے معذور باپ کی آدھا گھنٹے تک مالش کرتی ہے۔ پھر اسے واش روم لے جاتی ہے۔ پھر سارا دن وہ کام کرتی رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان تمام امور کو سرانجام دیتے ہوئے وہ کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتی۔ جیاجیا کے والد نے سوشل میڈیا پر ایک پیج بنایا ہے، جس میں وہ اپنی بچی کی خدمت گزاری سے متعلق تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرتا ہے۔ اس پیج کو چار لاکھ اسّی ہزار سے زائد افراد فالوو کررہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس باہمت بچی کی داستان دل موہ لینے والی ہے۔ مگر چین کی یہ واحد بچی نہیں ہے، جس نے پورے گھر کو سنبھالا ہوا ہے۔ اس کی طرح ایک سات سالہ بچی بھی ہے، جو والد کی وفات کے بعد اپنی دادی کے ساتھ اکیلی رہتی ہے۔ Yi Miaomiao نامی اس بچی کی کہانی بھی جیاجیا کچھ مماثلت رکھتی ہے۔ والد کی وفات کے بعد اس کی ماں نے شادی کی اور اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ جس کے بعد یہ بچی بھی اپنی دادی کی مکمل خبرگیری کرتی ہے۔ جبکہ اس نے گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More