عارف انجم
توہین شان رسالت کے جرم میں ننکانہ کی ماتحت عدالت اور پھر لاہور ہائیکورٹ سے سزائے موت پانے والی ملعونہ آسیہ بی بی کے حق میں چلائی جانے والی مہم تیز ہو گئی ہے۔ ماضی میں آسیہ کے خلاف مقدمے کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ایک ’’ان پڑھ دیہاتی عورت کو ذاتی دشمنی پر‘‘ نشانہ بنایا گیا۔ تاہم اب آسیہ کے مقدمے کو دفاعِ عیسائیت کا مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور 8 برس پہلے جس عورت کو دینی امور سے نابلد قرار دیا جا رہا تھا، اب وہ عیسائی ہیرو کے طور پر سامنے لائی جا رہی ہے۔ آسیہ کے شوہر عاشق مسیح کے اس جملے کو بار بار دہرایا جا رہا ہے کہ اس کی بیوی مسیح کیلئے قربانی دینے کو تیار ہے۔ دوسری جانب ممکنہ رہائی کی صورت میں اسے پاکستان سے باہر لے جانے کے انتظامات بھی طویل عرصے سے مکمل ہیں۔
آسیہ بی بی کی رہائی کیلئے مہم میں حالیہ تیزی تین روز پہلے سے دیکھی گئی، جب سپریم کورٹ نے آسیہ کی اپیل 8 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر کی۔ سماعت سے 24 گھنٹے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آسیہ کے حق میں مہم شروع ہو گئی۔ #AsiaBibi اور #FreeAsiaBibi کے ہیش ٹیگز سے ہزاروں ٹویٹس ہوئیں۔ ٹویٹر پر کئی پاکستانی صارفین نے بھی آسیہ کی رہائی کی حمایت کی۔ جواب میں تحریک لبیک پاکستان اور ختم نبوت کی تنظیموں کی جانب سے #PunishAsiaUnder_295c کے ٹیگ سے ٹویٹس شروع کی گئیں۔ جن میں غازی ممتاز قادری شہید کو پھانسی دینے اور ملعونہ آسیہ کا معاملہ زیر التوا رہنے پر سوالات اٹھائے گئے۔ سماعت سے کئی گھنٹے پہلے ہی تنائو اتنا بڑھ گیا کہ تحریک لبیک کے رہنما پیر اعجاز اشرفی نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا۔ جبکہ تحریک لبیک کی طر ف سے ایک تحریری بیان بھی جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ اگر ملعونہ آسیہ کو کسی دوسرے ملک کے حوالے کیا گیا تو سنگین نتائج نکلیں گے۔ سپریم کورٹ کی سماعت پیر کو دوپہر ایک بجے شروع ہونی تھی۔ اس سے پہلے ہی کشیدگی اتنی بڑھ چکی تھی کہ عدالت کے احاطے میں اور اردگرد سخت حفاظتی انتظامات کرنا پڑے۔ جیمرز بھی نصب تھے۔
تاہم آسیہ کے حق میں نئی مہم کا ایک اہم حصہ بیرون ملک چلایا جا رہا ہے۔ جس میں ایک جانب عدالتی سماعت سے پہلے ہی یہ دعوے شروع ہوگئے کہ آسیہ بی بی کی رہائی جلد متوقع ہے۔ آسیہ کے وکیل سیف الملکوک کا یہ بیان بڑے پیمانے پر شائع ہوا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہے اور انہیں سو فیصد یقین ہے کہ اسے بری کر دیا جائے گا۔ دوسری جانب درجنوں مغربی مسیحی ویب سائٹس بشمول کیتھولک ہیرالڈ، کیتھولک نیوز سروس، چرچ ان چین وغیرہ نے آسیہ بی بی کو صلیبی ہیرو کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ اس کے مقدمے کو دفاع عیسائیت کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ کیتھولک نیوز سروس نے آسیہ کے شوہر عاشق مسیح کا انٹرویو شائع کیا، جس میں عاشق مسیح کا کہنا تھاکہ وہ اور ان کی بیٹیاں یکم اکتوبر کو ملتان جیل میں آسیہ سے مل کر آئے ہیں۔ عاشق کا کہنا تھا کہ ’’وہ (آسیہ) نفسیاتی، جسمانی اور روحانی اعتبار سے مضبوط ہے۔ اس کا عقیدہ مضبوط ہے۔ وہ مسیح کیلئے مرنے کو تیار ہے۔ وہ کبھی اسلام قبول نہیں کرے گی‘‘۔ اسی گفتگو میں عاشق نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کئی ممالک نے پناہ کی پیش کش کی ہے اور جیسے ہی آسیہ کو رہا کیا گیا وہ ان میں سے کسی ایک ملک میں پناہ لے لیں گے، کیونکہ پاکستان میں کوئی جگہ آسیہ کے لیے محفوظ نہیں۔
عاشق مسیح کے انٹرویو میں آسیہ کے مسیح کے لیے مرنے کو تیار ہونے اور قبول اسلام سے انکار کے دعوے پہلی مرتبہ نہیں کیے گئے۔ عاشق مسیح نے پہلی مرتبہ یہ بات 2009ء میں ایک تقریب کے دوران کہی تھی۔ لیکن اس وقت اسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ شروع میں آسیہ کے حامیوں کا یہی موقف تھا کہ وہ ایک ان پڑھ عورت ہے، جو مذہب سے متعلق زیادہ نہیں جانتی اور ذاتی دشمنی پر اسے مذہبی معاملے میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ننکانہ صاحب کی عدالت میں 20 اکتوبر 2010ء کو آسیہ نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے حضرت محمدؐ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی اور نہ ہی قرآن پاک کے بارے میں نازیبا جملے کہے ہیں، بلکہ استغاثہ کی گواہ دونوں بہنوں نے ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے اس پر الزام عائد کیا۔ پھر یہ دعوے بھی سامنے آئے کہ آسیہ کی ذہنی حالت خراب ہے اور وہ dementia کا شکار ہو رہی ہے۔ لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں ایک نئی کہانی تیار کر لی گئی ہے، جسے اب بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے۔ اس نئی کہانی میں آسیہ سے منسوب دو جملے اہم ہیں۔ آسیہ کی زندگی پر 2013ء میں ایک کتاب چھپی۔ Blasphemy: A Memoir: Sentenced to Death Over a Cup of Water (توہین: ایک یادداشت، پانی کے ایک کپ پر موت کی سزا) کے عنوان سے اس کتاب کے مصنفین کے طور پر آسیہ بی بی اور فرانسیسی خاتون صحافی این ایزابیل کے نام ہیں۔ کتاب کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ آسیہ نے جیل سے یادداشتیں لکھ کر بھیجیں، جنہیں این ایزابیل نے کتابی شکل دی۔ اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ گائوں کی عورتوں سے پانی کے معاملے پر آسیہ کا جھگڑا ہوا۔ اس جھگڑے میں آسیہ نے دو جملے ادا کیے۔ کتاب میں درج ان جملوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدؐ میں تقابل اور شان رسالت پر سوال اٹھائے جانے کا تاثر بنتا ہے۔ ادارہ ’’امت‘‘ یہ الفاظ یہاں نقل نہیں کر سکتا۔ اگرچہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق آسیہ ملعونہ کے خلاف عدالت میں گستاخی کے جو الزامات لگائے گئے ہیں، وہ ان جملوں سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ تاہم کتاب میں درج یہ دو جملے کئی سوالات پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ آسیہ کے عدالتی بیان میں یہ جملے کہیں نہیں۔ آسیہ کی کتاب سے یہ جملے کئی دیگر کتابوں اور اخباری رپورٹوں میں بھی نقل ہوئے ہیں۔ ان جملوں اور عاشق مسیح کے بیان کے ذریعے آسیہ کو اس انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، جیسے اس نے عیسائیت کی کوئی جنگ لڑی ہے اور اب اس جنگ میں جان قربان کرنے کو بھی تیار ہے۔ بچ گئی تو اس کا ہیرو کی طرح استقبال کیا جائے گا۔ کتاب میں ہی یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ جھگڑے کے بعد مسلمان عورتوں نے آسیہ مسیح کو توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کیلئے کہا تھا۔ جب اس نے یہ بات نہیں مانی تو اس پر مقدمہ بنا دیا گیا۔ قبول اسلام پر مجبور کرنے کے حوالے سے اس دعوے کو بھی دہرایا جا رہا ہے۔ پیر کو آسٹریلوی ویب سائٹ news.com.au نے اپنی رپورٹ میں آسیہ کی کتاب سے لیے گئے جملے اور یہ دعویٰ نقل کیا کہ عورتوں نے اسے اسلام قبول کرنے کیلئے کہا تھا۔
آسیہ بی بی کو ہیرو بناکر پیش کرنے کیلئے اس کے عبادت گزار راسخ العقیدہ عیسائی ہونے کے یہ دعوے اس کے عدالت کو دیئے گئے بیان سے متضاد ہیں۔ جس بیان میں آسیہ نے توہین رسالت سے انکار کیا ہے، اسی میں وہ یہ بھی کہتی ہے ’’میں ان پڑھ ہوں، عیسائیت کی کوئی پادری نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گائوں میں کوئی چرچ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اسلامی نظریات سے لاعلم ہونے کی بنا پر میں ایسے الٹے سیدھے اور گستاخانہ ریمارکس کیسے دے سکتی ہوں‘‘۔ یاد رہے کہ آسیہ کے خلاف جو الزامات ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت محمدؐ، حضرت خدیجہؐ اور قرآن پاک سمیت اسلام کے بارے میں کافی کچھ جانتی تھی، جس کی بنا پر اس نے گستاخانہ باتیں کیں۔ اس بات کو غلط ثابت کرنے کیلئے اس کا موقف تھا کہ چونکہ وہ ان پڑھ اور اسلامی نظریات سے ناواقف ہے، لہٰذا اس کا ایسی باتیں کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ آسیہ مسیح کے کیس میں ابتدا میں اس کے حامیوں نے بھی ’’ان پڑھ‘‘ عورت کا یہ موقف اپنایا۔ لیکن اب مغربی عیسائی تنظیمیں اس معاملے کو کچھ اور رنگ دے رہی ہیں۔ اب اسے صلیبی ہیرو بنایا جا رہا ہے۔
کیتھولک نیوز سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے عاشق مسیح نے کہا کہ ان کی بیوی بین الاقوامی برادری تک یہ پیغام بھی پہنچانا چاہتی ہے کہ وہ اسے اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ ان کی دعائوں سے جیل کا دروازہ کھل جائے گا اور وہ جلد رہا کر دی جائے گی۔ عاشق مسیح کا کہنا تھا ’’وہ اپنی زندگی بڑے مضبوط عقیدے سے گزار رہی ہے اور ہر روز بائبل پڑھتی ہے‘‘۔ اسی انٹرویو میں آسیہ کی بیٹی ایشام نے بھی کہا کہ ان کی ماں کو جلد رہا کردیا جائے گا۔ لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہ سکے گی۔ یہ انٹرویو پانچ اکتوبر کو انگلینڈ کے شہر چیسٹر میںAid to the Church in Need نامی تنظیم کی تقریب کے دوران دیا گیا۔ اس موقع پر آسیہ کی جلد رہائی کے امکانات ظاہر کیے گئے۔ مغرب میں آسیہ بی بی کے نام پر مہم چلانے والے عیسائی خیراتی ادارے چندہ بھی جمع کر رہے ہیں۔ ’’توہین: ایک یادداشت‘‘ نامی کتاب کے شروع میں کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی رائلٹی کی رقم سے آسیہ کے اہلخانہ کی حالت بہتر ہوئی ہے۔ اس کی ایک بیٹی کا مہنگا علاج ہو رہا ہے۔
عیسائی تنظیموں کی ہلچل کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر صارفین آسیہ کی اپیل کے حوالے سے کئی طرح کے تحفظات ظاہر کر رہے ہیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ ان قیاس آرائیوں کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس پر رپورٹنگ روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ بعض قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ میں زیر سماعت اپیل ملعونہ آسیہ کیلئے آخری راستوں میں سے ایک ہے۔ اگر یہ اپیل مسترد ہو گئی تو اس کے بچائو کا واحد ذریعہ صدارتی معافی ہوگی۔
آسیہ کو رہائی ملتی ہے یا پھانسی، دونوں صورتوں میں مغربی عیسائی تنظیمیں اسے صلیبی ہیرو بنانے پر تلی بیٹھی ہیں۔
٭٭٭٭٭