عمران خان
پرسنل بیگیج کی آڑ میں اسمگلنگ عروج پر پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق پورٹ قاسم پر اسمگلروں کے 2 گروپ کسٹم کے کرپٹ افسران کی ملی بھگت سے ماہانہ دو سو سے ڈھائی سو کنٹینرز کلیئر کرا رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول اسمگلروں نے ایئرپورٹ سے کھیپ کے ذریعے الیکٹرونکس کے سامان، موبائل فونز، کاسمیٹکس، ممنوعہ ادویات اور حساس آلات پاکستان منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ نیا طریقہ تلاش کرلیا ہے۔ جس کے تحت پاکستانی شہری متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ملائیشیا کے علاوہ دیگر ممالک سے سامان خریدکر اسمگلرز کے حوالے کردیتے ہیں، جو کنٹینرز کے ذریعے پاکستان لاکر یہ سامان کے ان کے گھروں پر پہنچا دیتے ہیں۔ ان کنٹینرز پر ماہانہ کروڑوں روپے کی ڈیوٹی اور ٹیکس چوری کیا جاتا ہے۔ معتبر ذرائع کے بقول ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم کے بعض کرپٹ کسٹم افسران کی ملی بھگت سے ماہانہ 200 سے ڈھائی سو کنٹینرز کے ذریعے ’’بیگیج اسمگلنگ‘‘ کی جا رہی ہے، جن میں الیکٹرونکس آئٹمز، موبائل فونز، کاسمیٹکس، ممنوعہ ادویات اور حساس آلات کے علاوہ ذاتی استعمال کے اسلحہ کے پرزے تک اسمگل کرکے لائے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول ’’بیگیج اسمگلنگ‘‘ کے نام سے ماہانہ سینکڑوں کنٹینرز کی غیر قانونی کلیئرنس کیلئے اسمگلرز کے دو بڑے عابد اور باجوہ گروپ کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ کے متفرق سامان کی کلیئرنس کے ذمے دار اپریزنگ گروپ اور ایگزامنرز کو بھاری رشو ت ادا کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عابد اور باجوہ گروپ بنیادی طور پر کلیئرنگ ایجنٹوں کا کام کرتے ہیں۔ ان کے نیٹ ورک میں کئی ناموں سے کمپنیاں رجسٹرڈ کرائی گئی ہیں، جن میں سے کچھ کا بزنس ٹائپ امپورٹ کا ہے۔ ان نیٹ ورک کے تحت کئی ایجنٹ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کی ریاستوں دبئی، عجمان، شارجہ اور راس الخیمہ وغیرہ کے علاوہ تھائی لینڈ، ملائیشیا اور سنگاپور میں موجود ہیں۔ یہ ایجنٹ وہاں موجود پاکستانیوں کی جانب سے وطن بھیجا جانے والا سامان بک کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول کچھ ایجنٹوں نے اپنے دفاتر قائم کئے ہوئے ہیں اور کچھ چلتے پھرتے موبائل فون پر بکنگ کرتے ہیں۔ ان پاکستانیوں کے سامان کی آڑ میں ممنوعہ اشیا لائی جاتی ہیں۔ ذرائع کے بقول اس نیٹ ورک سے فائدہ اٹھانے والوں کی اکثریت کا تعلق ایسے ڈیلروں اور دکانداروں سے ہے، جو بیرون ملک سے الیکٹرونکس آئٹم، موبائل فونز، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، کیمرے، گھڑیاں اور ممنوعہ ادویات پاکستان لاکر اپنی دکانوں پر فروخت کرتے اور مارکیٹوں میں سپلائی کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول ڈیلر یہ سامان ایئر لائنز کے ذریعے ایئرپورٹ سے لاتے ہیں تو اس پر بہت زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے، جس سے سامان کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ ایئرپورٹ سے کھیپ کے ذریعے یہ سامان لانے کیلئے بہت زیادہ تگ و دو بھی کرنی پڑتی ہے۔ انتہائی مضبوط سیٹنگ رکھنے والے اسمگلرز ہی ایئرپورٹ سے کھیپ لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’بیگیج اسمگلنگ‘‘ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کیونکہ اس قسم کی اسمگلنگ میں ملوث کمپنیوں کے ایجنٹ سامان بک کرانے والوں کے ساتھ ’’ڈن‘‘ (Done) کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور سامان پاکستان میں ان کے گھروں کی دہلیز تک پہنچانے کی ذمے داری لیتے ہیں۔ اس دھندے میں اضافہ کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بیرون ملک موجود کئی پاکستان ایسی اشیا بھی خرید لیتے ہیں جو کہ وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس دے کر بھی پاکستان نہیں لے جاسکتے، کیونکہ ان اشیا پر پابندی عائد ہے، جن میں نشہ آور اور جنسی ادویات بھی شامل ہیں اور ان کی پاکستانی قوانین کے مطابق خرید و فروخت اور پاکستان میں امپورٹ ممنوع ہے، اس حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور اینٹی نارکوٹیکس فورس کے نوٹیفکیشن موجود ہیں۔ جبکہ کسٹم کی امپورٹ پالیسی میں بھی ان ہدایات کو ایس آر او کی صورت میں نافذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح حساس الیکٹرونک آلات جن میں وائرلیس، ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم ڈیوائسز اور پاکٹ جامرز اینڈ اینٹی جیمرز ڈیوائسز بھی پی ٹی اے کی اجازت کے بغیر نہیں لائی جاسکتیں۔ جبکہ پورٹ قاسم پر کرپٹ کسٹم افسران کی سرپرستی میں ہونے والی اسمگلنگ میں یہ اشیا بھی ملک میں لائی جارہی ہیں۔ذرائع کے بقول بیرون ملک جانے والے افراد جب وہاں سامان کی خریداری مکمل کرلیتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ یہ سامان لانے کے بجائے بیرون ملک میں ہی اپنے ’’بیگ‘‘ ایجنٹوں کو دے دیتے ہیں اور گھر تک سامان پہنچانے کیلئے طے کردہ رقم میں سے نصف پہلے ہی ادا کردی جاتی ہے۔ ایجنٹوں کے پاس جب کسی ایک شہر کیلئے سو تا پانچ سو بیگیج کی بکنگ مکمل ہوجاتی ہے تو وہ اس سامان کو کنٹینرز میں بھر کر متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، چین، تھائی لینڈ اور سنگارپور وغیرہ کی بندرگاہوں سے کراچی کے پورٹ قاسم پر منتقل کردیتے ہیں۔ یہاں ان کنٹینرز کو کلیئر کرانے کیلئے عابد گروپ اور باجوہ گروپ کے ذریعے چلائی جانے والی کمپنیوں کے توسط سے گڈز ڈکلریشن داخل کی جاتی ہے، جس میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سامان ایک ہی کمپنی کی جانب سے بیرون ملک سے منگوایا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول بیرون ملک سے متفرق سامان کے جب بھی کنٹینر آتے ہیں ان کو ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ کے افسران کی جانب سے قانونی طور پر ریڈ چینل یا یلو چینل کے ذریعے کلیئر کیا جاتا ہے، جس میں کسٹم اپریزنگ افسران کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ایگزامنرز کی حیثیت سے پورے کنٹینر کو مکمل طور پر کھول کر چیک کریں اور تمام سامان کو علیحدہ کرکے جانچ پڑتال کے بعد کلیئرنس کے لئے اس کی رپورٹ بنا کردیں۔ تاہم اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کے کارندے ماڈل کسٹم کلکٹوریٹ اپریزمنٹ کے متعلقہ افسران کو بھاری رشوت دیکر سرسری جانچ پڑتال کراتے ہیں۔ اس کے بعد مذکورہ کنٹینرز کو کلیئر کرکے گوادموں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ جہاں سے ہر شخص کے بیگ کو علیحدہ کرکے اس کو اس کے گھر تک پہنچانے کیلئے مقامی سطح پر سرگرم ایجنٹوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جوکہ یہ بیگ گھروں تک پہنچا کر مزید نصف قم وصول کرلیتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اسمگلنگ کے اس دھندے سے ہر ماہ قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹم قوانین کے تحت کوئی بھی تاجر یا ڈیلر اپنی کمپنی کے تحت صرف اپنا ہی سامان منگوا سکتا ہے۔ جبکہ ان کنٹینرز کے اندر موجود بیگوں پر سامان منگوانے والے ہر شخص کی علیحدہ شناخت یعنی نام اور ایڈریس وغیرہ بیگ میں موجود سامان کی فہرست کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیں، جوکہ مکمل طور پر اسمگلنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ تاہم اسمگلرز کے مذکورہ دو گروپوں سے ملنے والی بھاری رشوت کی وجہ سے کرپٹ کسٹم افسران ان کنٹینرز کو کلیئر کردیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Next Post