احمد نجیب زادے
مصر کے قدیم قبائلی عدالتی نظام میں دہکتے چمچے کا اہم مقام ہے، جو آج بھی طویل اور پیچیدہ مقدمات کا فیصلہ منٹوں میں کر دیتا ہے۔ مصری میڈیا کے مطابق، قبائلی عدالتی سربراہ عمائدین کے ساتھ بیٹھ کر مقدمہ سنتا ہے اور فریقین کو سامنے بٹھا کر ان سے حلف لیتا ہے۔ اس حلف کی تصدیق کے دوران قریب ہی کوئلوں کو دہکایا بھی جاتا ہے اور ان پر لوہے کا چمچہ بھی رکھ دیا جاتا ہے۔ جو فریق اپنے فیصلے کیلئے پہلے حلف اُٹھاتا ہے، اس کو سامنے بٹھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کیا تم اپنے موقف پر قائم ہو؟ اگر وہ اس موقع پر بھی یہی موقف رکھتا ہے تو اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی زبان کو منہ سے باہر نکالے اور پھر ملزم کی زبان پر لوہے کا دہکتا ہوا چمچہ رکھ دیا جاتا ہے اور اس عمل کو تین بار دہرایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے کچھ قبل تین قبائلی معاونین یکے بعد دیگرے اس ملزم کے ہونٹوں اور زبان کا معائنہ کرتے ہیں کہ کہیں اس نے کوئی کیمیکل یا آگ کو بے اثر کرنے والا محلول تو نہیں لگایا ہوا۔ اس سلسلے میں قبائلی شیخ بعض دعائیں بھی پڑھتے ہیں۔ انتہائی دلچسپ بات اس سلسلے میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر بیان دینے والا فرد سچا ہوتا ہے تو اس کی زبان پر آگ کی تپش سے سرخ ہوتے لوہے کے چمچے سے کوئی اثر نہیں ہوتا اور زبان نہیں جلتی۔ لیکن اگر اس کی زبان جل جائے تو اس کو مجرم اور دروغ گو سمجھا جاتا ہے اور مقدمے کا فیصلہ اس کے خلاف کردیا جاتا ہے اور فریق دوم کو مبنی بر حق سمجھ کر اس کو ڈگری دے دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مصر کے قدیم قبائلی یا بدوی نظام میں یہ آگ کا انصاف آج بھی قائم ہے اور ایسی کورٹس میں فیصلہ کرانے کیلئے جانے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی باری کی منتظر رہتی ہے۔ سینائی خطے میں موجود ایک قبائلی سربراہ حاتم العبود نے بتایا ہے کہ وہ متعدد بار اس قدیم عدالتی نظام کا حصہ بن کر اپنی نگاہوں سے مجرموں کی زبان جلتے اور بے گناہو ں کیلئے تپتے چمچ کو بے ضرر دیکھ چکے ہیں۔ انہیں قدرت کے اس قانون پر یقین ہے کہ آگ سچائی کو نہیں جلاتی اور جھوٹوں کو روسیاہ کئے بغیر نہیں چھوڑتی۔ مصری قبائلی نظام کے انصاف کے بارے میں مقامی صحافی عبید المصری کہتے ہیں کہ دور جدید کے قانونی نظام کے مقابلے میں قبائلی اور بدوی نظام انصاف پر یقین رکھنے والے مصریوں کی ایک بہت بڑی تعداد سریع الاثر انصاف کے حصول کیلئے قبائلی بدوی عدالتوں کا رخ کرتی ہے۔ سینائی خطے میں رائج صدیوں قدیم اس قانون کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے مصری صحافی نے بتایا کہ پورے قبائلی خطہ سمیت بالخصوص صحرائے سینا کے قبائل میں سنگین اور پیچیدہ مقدمات کا فیصلہ ’’بشاوی‘‘ (قبائلی عدالت) کے تحت کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ فریقین کو سوچ سمجھ کر عدالت میں آنا ہوگا کیوں کہ اب فیصلہ قبائلی ججوں اور جیوری کے اراکین کے بجائے آگ میں دہکایا ہوا چمچ کرے گا۔ مصری میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ قبائلی یا بدوی انصاف کے اس طریقہ کار پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز اعتراض کرتی رہی ہیں اور انہوں نے ماضی کے سربراہان جمال عبدالناصر، انور السادات اور حسنی مبارک پر زور دیا تھا کہ وہ اس جابرانہ اور ظالمانہ طریقہ انصاف پر پابندی عائد کریں۔ لیکن حالیہ فوجی آمر سیسی سمیت تمام صدور نے اس ضمن میں بے بسی کا موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس معاملہ میں کوئی ایکشن نہیں لے سکتے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post