محمد زبیر خان
گیارھویں خلیفہ راشد ہونے کے دعویدار ملعون کو خانیوال پولیس نے عدالتی ریمانڈ پر ملتان جیل بھیج دیا، جہاں اس کو خصوصی حفاظتی انتظامات میں رکھا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق فراڈیئے کو عام قیدیوں اور حوالاتیوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔ ملزم عبداللہ بن منیب کی جانب سے جیل عملے کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ اس نے عملے کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی اور جیل میں وی آئی پی سہولیات مہیا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ملزم نے دھمکی دی کہ اگر اس کو خصوصی مراعات نہ دی گئیں تو وہ عملے کو بددعائیں دے گا۔ عبداللہ نے گرفتاری سے بچنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ اپنا موبائل فون بند کرکے وہ لاہور، ساہیوال اور خانیوال فرار ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن بالآخر پولیس کی گرفت میں آگیا۔
خانیوال پولیس کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ گرفتار ملزم امام عبداللہ بن منیب نے سوشل میڈیا پر اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا، جس پر پورے ملک میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ خانیوال پولیس نے عبداللہ کیخلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا اور بعد ازاں اس کو گرفتار کرلیا گیا۔ گزشتہ روز ملزم کو کورٹ میں پیش کرکے عدالتی ریمانڈ پر ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ملزم کو ملتان سینٹرل جیل بھیجنے کا فیصلہ جیل میں موجود موثر حفاظتی اقدامات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پولیس کی حراست کے دوران ملزم مکمل طور پر خاموش رہا اور اس نے زیادہ شور شرابہ نہیں کیا۔ لیکن جب اس کو جیل پہنچایا گیا تو اس نے پر پرزے نکالنا شروع کردیئے اور مختلف سہولتوں کیلئے رعب جھاڑنے لگا۔ وہ جیل عملے کو دبائو میں لینے کیلئے مختلف بڑھکیں بھی مارتا رہا۔ ملزم نے جیل انتظامیہ سے کہا کہ اگر اس کے ساتھ وی پی آئی سلوک نہ کیا گیا تو وہ ان کے حق میں بد دعائیں کرے گا اور اس کی دعا اور بددعا فوراً سنی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول فراڈی شخص نے جیل اہلکاروں کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت بھی دی اور بیعت نہ کرنے کی صورت میں ان کے گناہ گار ہونے کی وعید بھی سنائی۔ تاہم جیل انتظامیہ کو ملزم کی مکاریوں کے بارے میں پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا، لہذا اس کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق ملزم کو خصوصی حفاظتی اقدامات میں رکھا گیا ہے اور اس کی ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق ملزم عبداللہ بن منیب کی گرفتاری ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ وہ مسلسل اپنے ٹھکانے تبدیل کر رہا تھا اور اس نے اپنا موبائل فون بند کر دیا تھا۔ پولیس کو دھوکہ دینے کیلئے وہ کسی مقام پر موبائل آن کرتا اور مختلف لوگوں سے بات چیت کے بعد فون بند کرکے کسی اور مقام پر چلا جاتا۔ اس کو علم تھا کہ اس کی کالز ریکارڈ کی جارہی ہیں، لہذا وہ فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے اپنی روانگی کی جگہ غلط بتاتا تھا۔ وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے لاہور، ساہیوال اور خانیوال کے درمیان متواتر سفر کرتا رہا اور گاڑیاں بھی تبدیل کرتا رہا۔ تاہم پولیس نے اس کا تعاقب جاری رکھا۔ ذرائع کے بقول خانیوال پولیس کی درخواست پر ساہیوال اور لاہور کی پولیس بھی ملزم کی گرفتار کیلئے سرگرم ہوگئی تھی۔ پھر پولیس کے ایک مخبر نے بتایا کہ فلاں ناکے سے ملزم گزر سکتا ہے۔ یہ اطلاع درست ثابت ہوئی اور عیار ملزم کو پکڑ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم عبداللہ پرسکون نظر آرہا تھا اور اس نے پولیس کی بھاری نفری کے سامنے خاموشی سے سرنڈر کیا۔ ملزم نے پولیس اور پھر عدالت میں دیئے گئے بیان میں بھی خود کو گیارہواں خلیفہ قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں موجود شخص کا کہنا تھا کہ ’’میں عبداللہ بن منیب امت مسلمہ کے گیارہویں خلیفہ راشد کی حیثیت سے اپنی خلافت کے ظہور کا اعلان کرتا ہوں۔ اور میں یہ اعلان اللہ اور حضرت محمد ﷺ کی شفقت میں کر رہا ہوں‘‘۔ (نعوذ باللہ)۔ ملعون عبداللہ بن منیب کا دعویٰ ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے اس کے بارے میں پیش گوئی بھی کی تھی اور اس حوالے سے اس نے ایک حدیث کا بھی حوالہ دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ امام مہدی کی خلافت کا بھی امین ہے۔ اگر کسی نے مجھ سے اور مجھ سے جڑے علما کی شان میں گستاخی کی تو امت مسلمہ کا ان افراد سے بدلہ لینا فرض ہوگا۔ پاکستان کے نظام کو خلافت کے نظام سے بدل دیں۔ ویڈیو میں موجود شخص نے یہ بھی کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ نوجوانوں اسلام کو پروان چڑھانے کیلئے میری مدد کریں۔ جو بھی میری بیعت کیے بغیر اس دنیا سے گیا، وہ جہنم میں جائے گا۔ اس لئے اپنے ایمان کی فکر کریں اور اللہ کے حکم کے آگے اپنا سر جھکا دیں۔ عبداللہ بن منیب نے وزیر اعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی کہا کہ وہ اس کی بیعت کریں۔ خانیوال پولیس نے ہٹھہ صادق آباد تھانے میں عبداللہ بن منیب کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اے اور ایم پی او کی دفعہ 16 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post