سجاد عباسی
دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک ہمیں ہوٹل سے چیک آؤٹ کی ہدایت تھی کیونکہ ڈھائی بجے کی ٹرین سے وفد کو ماسکو سے روس کے خوبصورت ساحلی شہر سینٹ پیٹرز برگ روانہ ہونا تھا جسے محلات کا شہر (City Of PALACES) کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک دن پہلے جب میزبانوں سے بات ہوئی تو ہم نے کہا کہ ویسے تو دونوں شہروں کے درمیان ہوائی جہاز کا سفر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا ہے، مگر چونکہ ہم روس کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا ٹرین کا سفر زیادہ بہتر رہے گا چاہے اس میں چار گنا زیادہ وقت ہی کیوں نہ لگ جائے۔ اس پر انہوں نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ سینٹ پیٹرز برگ، ماسکو سے کوئی پونے سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور بلٹ ٹرین آپ کو 4 گھنٹے کے اندر پہنچا دے گی۔ جہاز پر اگرچہ اس سے نصف وقت لگتا ہے مگر دونوں طرف کے ایئرپورٹس پر آنے جانے اور بورڈنگ سمیت دیگر مراحل سے گزرتے ہوئے چار گھنٹے سے زائد وقت ہی لگ جائے گا۔ لہٰذا اس لحاظ سے بھی ٹرین کا سفر بہتر رہے گا۔ قو نصلر بلال وحید نے ہماری معلومات میں ’’جھٹکا خیز‘‘ اضافہ کرتے ہوئے مسکراہٹ کے تسلسل کے ساتھ بتایا کہ ٹرین اور جہاز کے کرائے میں بہت فرق ہے۔ یعنی ٹرین کا سفر جہاز سے دگنا مہنگا ہے۔ استفسار پر بتایا کہ اس کا ایک سبب تو ٹرین کی تیز رفتار اور آرام دہ سروس ہی ہے اور دوسرے ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان ٹرین کا یہ روٹ پورے روس کا مصروف ترین روٹ ہے۔ کیونکہ غیر ملکی سّیاحوں کی اکثریت ٹرین کے سفر کو ترجیح دیتی ہے، جبکہ ویک اینڈ وغیرہ گزارنے کے لئے جانے والے روسی شہری بھی زیادہ تر ٹرین ہی سے سفر کرتے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ سیاحت کے سیزن میں ماسکو سے سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان ٹرین کا کرایہ ڈیڑھ سو سے 450 ڈالر تک جاتا ہے جبکہ عام دنوں میں کم از کم 70 سے اور زیادہ سے زیادہ 180 ڈالر تک وصول کیا جاتا ہے۔ جب ہم نے سفر کیا تو فی کس کرایہ 140 ڈالر تھا، جبکہ اس موسم میں ہم جہاز پر جاتے تو اس کا نصف یعنی70 ڈالر ادا کرنا ہوتا۔ سچی بات یہ ہے کہ ٹرین کے مقابلے میں جہاز کی کم مائیگی دیکھ کر پہلی بار ہمیں جہاز پر ترس آنے لگا۔ ٹرین کی روانگی سے کوئی نصف گھنٹہ پہلے ہم اسٹیشن پہنچ چکے تھے۔ مگر ٹکٹ دیکھ کر معلوم ہوا کہ روانگی کا درست وقت دو بج کر 41 منٹ ہے۔ 41 منٹ کا فلسفہ کچھ پلے نہیں پڑا تو ہم نے اسرار صاحب سے پوچھ لیا کہ ہمارے ہاں تو ٹرینیں تین، ساڑھے تین اور پونے چار ٹائپ کے فارمولے پر چلتی ہیں۔ یہ 41 منٹ کا کیا چکر ہے؟ انہوں نے بتایا کہ روسی وقت کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور اس سے ان کے قومی مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ آپ دیکھیں گے کہ 2 بج کر 41 منٹ کا مطلب ساڑھے 41 منٹ بھی نہیں ہوگا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ٹرین پورے 41 منٹ پر چل پڑی۔ ہمیں بتایا گیا کہ راستے میں کوئی چھ اسٹاپ آئیں گے مگر یہ خیال رہے کہ ٹرین ایک منٹ سے زیادہ نہیں رکے گی اور یہاں ایک منٹ 60 سیکنڈ کا ہی ہوتا ہے، لہٰذا ٹرین سے اترنے میں سستی کرنے والا نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔ یہ انتباہ بالخصوص اسموکرز کے لیے تھا جن کے لیے ایسا سفر قید با مشقّت سے کم نہیں ہوتا، جس میں سگریٹ نوشی کی اجازت نہ ہو۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ اس سفر میں قونصلر بلال وحید ہمارے شریک سفر نہ تھے کیونکہ وہ ماسکو میں ضروری کام نمٹانے کی خاطر رک گئے تھے۔ تاہم ان کے نائب اسرار محمود، منتظم کے فرائض انجام دے رہے تھے جن کا حسن انتظام اگلے تین دن بھی ہم سب کی تعریفوں کی زد میں رہا جبکہ حسن اخلاق ہمارے ساتھ سفر کرتا ہوا پاکستان آگیا۔ ٹرین میں سامان رکھنے کی جگہ بوگی کے عقبی حصے میں تھی جبکہ جہاز کی طرح ہینڈ کیری کے لیے اوپر کیبنٹ بنے ہوئے تھے۔ ٹرین تو کیا تھی یوں سمجھیں جہاز ہی کا ’’زمینی ورژن تھا‘‘۔ آرام دہ اور کشادہ نشستیں، پرآسائش ماحول، دلفریب مسکراہٹیں بکھیرتی چاک و چوبند ٹرین ہوسٹسز، الغرض پورا ماحول ہی ہوائی جہاز والا تھا۔ سامنے سے ٹرین کی شکل تو نام کی مناسبت سے بلٹ یعنی گولی جیسی ہی تھی، مگر ہم سب اپنی اپنی جگہ اندر سے خوفزدہ تھے کہ اگر اس کی رفتار بھی گولی جیسی ہوئی تو کہیں چلتی سانسیں تھم نہ جائیں۔ یہ سوچتے ہوئے ہمیں اپنی بعض پاکستانی ٹرینوں کی سست رفتاری بے طرح یاد آئی جو اتنی ’’اصیل‘‘ ہیں کہ چلتی ٹرین پر بھی بندہ سوار ہو جائے۔ مگر ہم میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے سے اس خوف کا اظہار نہ کیا اور ’’ہمہ یاران دوزخ‘‘ کے فارمولے ہی پر عمل پیرا رہے۔ خیر جب ٹرین چلنے لگی تو سامنے دیوار پر نصب اسپیڈو میٹر پر ہماری نظریں جم گئیں اور جوںجوں ٹرین چلتی گئی خوف بھی جاتا رہا کیونکہ اس کی رفتار کم و بیش اسی طرح ہموار ہوجاتی ہے جیسے طیارہ فضا میں بلند ہونے کے بعد ایک خاص رفتار اور سطح پر آ کر ہموار ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی بنیادی وجہ ٹریکس کی کنڈیشن ہے اور دوسرے یہ ٹریک بالکل سیدھے اور ہموار ہیں۔ ادھر اُدھر مڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ٹرین کی حد رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک گئی مگر چند منٹ بعد ہماری ٹرین سے اتنی دوستی ہوگئی تھی کہ ہم نے اسپیڈو میٹر سے نظریں ہٹا کر آس پاس کے مسافروں اور بیرونی مناظر پر بھی گھمانا شروع کردیں۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ ہم جس بوگی میں سفر کر رہے تھے وہ سیکنڈ کلاس تھی، اب فرسٹ کلاس میں سہولتوں کا کیا عالم ہوگا، اس کے لیے درکار قوّت تخیل سے ہم محروم تھے۔ ٹرین کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے بیرونی مناظر زیادہ باریکی سے دیکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ البتہ سبزہ دونوں طرف بے بہا دکھائی دے رہا تھا جو روس کی ایک خاص پہچان ہے۔ دیہی روس کی ہریالی آنکھوںکو ٹھنڈک پہنچا رہی تھی جبکہ اندرونی ماحول بھی خوشگوار اور پرامن تھا۔ قدرے طویل سفر کے پیش نظر زیادہ تر مسافر یا تو ٹانگیں پسار کر محو خواب تھے یا پھر کوئی کتاب پڑھ رہے تھے جنہیں دیکھ کر ہمیں لگا کہ ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘ … سفر کی تیاری کے دوران ہم نے بھی کوئی تین عدد کتابیں بڑے اہتمام کے ساتھ سامان میں رکھ لی تھیں کیونکہ روزانہ کی مصروفیات اور موبائل فون کی لغویات کو نمٹاتے ہوئے کتاب پڑھنے کا وقت تو ملتا ہی نہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ اس سفر میں شاید کتاب سے کچھ آمنا سامنا ہو پائے گا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ … ویسے بھی ماسکو کی خوبصورتی اور طے شدہ مصروفیات نے اس کی مہلت نہ دی۔ اب آس پاس کے مسافروں کو دیکھ کر ہمیں بھی بیگ میں موجود کتاب کا خیال آیا اور چند صفحے پڑھ ڈالے۔ ایک اور دلچسپ بات کہ جب ہم ٹرین کے اندرونی مناظر کا جائزہ لے رہے تھے تو کچھ مسافر ہمیں بہت پرسکون انداز میں موبائل فونز پر مصروف دکھائی دیئے۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ان میں زیادہ تر مسافر ہمارے پاکستانی احباب ہی ہیں جو کوئی گھنٹہ بھر پہلے وائی فائی کنیکٹ نہ ہونے پر شدید بے چین تھے اورکبھی اسرار محمود کو تو کبھی کسی ٹرین ہوسٹس کو بلاکر پاسورڈ میچ نہ ہونے کی مشکل سے آگاہ کر رہے تھے۔ مگر اب ان کی نظریں موبائل فون کی اسکرینوں پر جمی تھیں اور راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ البتہ اکا دکا روسی یا دیگر غیر ملکی مسافر بھی ہمیں موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر مصروف دکھائی دیئے۔
کوئی دو گھنٹے گزرنے کے بعد ہمیں بھوک نے ستایا تو آس پاس بیٹھے وفد کے دیگر ارکان پر نظر دوڑائی، جن میں سے ایک دو تو محو خواب تھے جبکہ دیگر نے ہمارے خیالات سے اتفاق کیا بلکہ دو ساتھی تو اگلی بوگی میں موجود ڈائننگ کار میں پہنچ چکے تھے۔ کھانے کے لئے دو آپشن تھے، ایک تو جہاز کی طرح ٹرالی میں کھانا سرو کیا جاتا ہے اور اس کا مینو آپ کے سامنے والی نشست کی پاکٹ میں موجود ہوتا ہے جس کے آگے قیمتیں درج ہوتی ہیں۔ اس کا لازمی مطلب یہی ہے کہ کھانے کی سہولت ٹکٹ میں شامل نہیں۔ بس بلٹ ٹرین کی جہاز سے عدم مماثلت کی یہی ادا ہمیں اچھی نہیں لگی۔ دوسرا آپشن ڈائننگ کار کا ہی تھا۔ سو ہم مشاہدے کے ساتھ ٹانگیں سیدھی کرنے کی خاطر اسی قطار میں لگے گئے جہاں ہمارے دیگر ساتھی کافی آگے تک پہنچ چکے تھے۔ بھوک کی شدت کے باوجود یہاں بھی کھانے کے معاملے میں احتیاط لازم تھا۔ چار روزہ تجربے کے پیش نظر ہم نے مینو کارڈ پر وقت ضائع نہیں کیا اور بلا تاخیر فش برگر کا آرڈر کردیا۔ مگر اس بار یہ تجربہ خاصا تکلیف دہ رہا۔ جب ہم نے برگر اور اس کے درمیان مبینہ طور پر موجود مچھلی کو دانتوں سے قابو کرکے ایک بائٹ لی تو زبان نے کسی ٹھنڈی اور بد ذائقہ کچی چیز پر احتجاج کیا۔ مگر ہم نے اسے وہم سمجھ کر خیال ذہن سے جھٹک دیا اور چبانا شروع کر دیا۔ لیکن اگلے لمحے غلطی کا احساس ہوگیا کیونکہ برگر میں موجود مچھلی کچی اور فریزر سے نکال کر رکھی گئی تھی۔ ہمارے ایک ساتھی جو ہم سے پہلے بڑی مہارت سے مچھلی ٹشو پیپر میں لپیٹ کر ڈسٹ بن میں پھینک چکے تھے، ہماری طرف دیکھ کر فاتحانہ انداز میں مسکرائے۔ ہم نے بھی انہی کی تقلید کی مگر کچی مچھلی کا ذائقہ رگ و پے میں سرایت کرچکا تھا پر کیا کرتے کہ ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز والا معاملہ تھا۔ اس واقعے کو آج ایک مہینہ ہونے کو ہے مگر ہم ٹی وی پر بھی کہیں مچھلی دیکھ لیں تو زبان پر وہی ’’بد ذائقہ‘‘ مچل جاتا ہے ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post