نمائندہ امت
ملعونہ آسیہ مسیح کا ممکنہ طور پر بیرون ملک فرار کا راستہ روکنے کیلئے وفاقی حکومت سے درخواست کرنے کے علاوہ مجرمہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی گئی ہے۔ پٹیشنر حافظ احتشام احمد کے وکیل حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر رٹ میں موقف اختیار کیا ہے کہ کسی بھی کیس کا فیصلہ آنے کے بعد فریقین کو اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دینے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے آسیہ مسیح کو بری کردیا گیا تو ماضی کے تجربات کے پیش نظر اندیشہ ہے کہ اس کو فوری طور پر بیرون ملک بھجوا دیا جائے گا اور ہمیں نظرثانی کی اپیل کا موقع نہیں ملے گا۔ اس لیے نظرثانی درخواست کا فیصلہ ہونے سے پہلے آسیہ مسیح کے فرار کا راستہ روکنے کیلئے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اگر آئینی و قانونی تقاضے پورے کئے بغیر آسیہ کو بیرون ملک جانے دیا گیا تو اس کے ذمہ دار وفاقی سیکریٹری داخلہ ہوں گے۔ حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے اپنی رٹ میں وفاقی سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے اور چیف سیکریٹری پنجاب کو فریق بنایا ہے اور ان کے ذریعے پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت سے اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی استدعا کی ہے۔ اس سے قبل حافظ احتشام نے بھی ایک درخواست کے ذریعے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے استدعا کی تھی کہ ملعونہ آسیہ کے کیس کا سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے اور اس کے بعد کسی بھی فریق کی جانب سے نظرثانی کی اپیل پر فیصلہ آنے تک اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ وہ بیرون ملک نہ جا سکے۔
واضح رہے کہ ملعونہ آسیہ کے خلاف 14 جون 2009ء کو تھانہ صدر ننکانہ صاحب میں 295 سی کے تحت توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوا تھا۔ جرم ثابت ہونے پر سیشن جج ننکانہ صاحب نے 8 نومبر 2010ء کو آسیہ مسیح کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ فیصلہ برقرار رکھا، جس کے بعد آسیہ نے اپنے وکیل کی وساطت سے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ اس اپیل پر سپریم کورٹ نے 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو کسی بھی دن سنایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے اس کیس کے حوالے سے میڈیا کو تبصرے کرنے سے روک دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر رٹ کے مدعی حافظ احتشام احمد نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’آسیہ مسیح اب ملزمہ نہیں مجرمہ ہے۔ سپریم کورٹ کا اس کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ آنے کے بعد، نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کا حق دونوں فریقین کو حاصل ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر آسیہ کو بے قصور قرار دے کر رہائی کا حکم دیا گیا، تو یورپی ممالک جو اس طرح کے گستاخوں کو پناہ دینے کیلئے بے تاب رہتے ہیں، یہ فوراً وہاں فرار ہو جائے گی اور کبھی واپس نہیں آئے گی۔ جیسا کہ ماضی قریب میں اسی طرح کے جرم میں ملوث اصغر کذاب اور افتخار شیخ عدالت سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد بیرون ملک فرار ہوئے اور وہاں ان کو پناہ دے دی گئی۔ اگر فیصلہ آسیہ ملعونہ کے حق میں آتا ہے تو اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل ہمارا آئینی حق ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں نظرثانی کی ضرورت پیش آئے تو اس نظرثانی درخواست کا فیصلہ آنے تک آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ لیکن اگر اس کی اپیل مسترد ہوتی ہے تو نظرثانی درخواست کرنا ملعونہ کا قانونی حق ہے۔ وہ چاہے تو یہ حق استعمال کرے‘‘۔ ایک سوال پر حافظ احتشام احمد نے کہا کہ ’’میں نے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے بات کر کے ان کو بذریعہ فیکس درخواست بھجوائی تھی، جس کے بعد کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی رٹ دائر کی ہے، جس کی سماعت ممکنہ طور پر جمعہ کے روز متوقع ہے۔ اگر آسیہ ملعونہ اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے سے پہلے بیرون ملک جانے میں کامیابی ہوئی، تو اس کے ذمہ دار وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی حکومت ہوگی۔ میں نے اپنی رٹ اور درخواست میں بھی بیان کیا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت بہت اہم اور حساس معاملہ ہے۔ ماضی میں سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی جیسے لوگ اس کی نذر ہو چکے ہیں۔ مسلمانان پاکستان تحفظ ناموس رسالت پر جان دینے اور کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لہذا حکومت اور دیگر ادارے اس مسئلے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھیں‘‘۔
حافظ احتشام احمد کی اس رٹ پٹیشن کے وکیل حافظ مظہر جاوید ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بہت اہم اور حساس کیس ہے، جو تقریباً ساڑھے نو سال سے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہا ہے۔ اس کیس کی وجہ سے سلمان تاثیر کا قتل ہوا اور ممتاز قادری شہید کی پھانسی کی بنیادی وجہ بھی یہ کیس بنا۔ تمام مسلمانوں کی نظر اب اس کیس کے فیصلے پر ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی فرد یا جماعت کسی بھی موقع پر قانون کو ہاتھ میں لے۔ اس لیے ہم نے قانونی چارہ جوئی کا حق استعمال کرتے ہوئے اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک آسیہ مسیح کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست دائر کی ہے۔ اگر ملعونہ کو کسی بھی موقع پر قانونی و آئینی تقاضے پورے کئے بغیر بیرون ملک فرار کرایا گیا تو اس سے انتشار پیدا ہو گا اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔
٭٭٭٭٭