امت رپورٹ
مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی بری طرح ناکام ہو گئی۔ جس کے بعد حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک چلنے کا امکان نہیں۔ اے پی سی میں بعض مذہبی قائدین کی جانب سے مولانا فضل الرحمان سے سخت سوالات کئے گئے۔ کانفرنس میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے علاوہ درجنوں دینی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا، تاہم جے یو آئی (س) اور اہلسنت والجماعت کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اتحاد تنظیمات مدارس کی جانب سے حکومت کو دیئے گئے 20 نکات پر جلد از جلد عمل درآمد کرانے پر زور دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمن کی جانب سے دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے تحت آنے والے پانچوں وفاق ہائے مدارس کے منتظمین کے علاوہ جماعت اسلامی، جماعت الدعوۃ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، اشاعت التوحید والسنہ، انصارالامہ، تحریک دفاع حرمین شریفین، تحریک نوجوانان پاکستان سمیت دیگر تنظیمیں شامل تھیں۔
مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی سے قبل 3 اکتوبر کو اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے وفد کی ملاقات وزیر اعظم عمران خان سے ہوئی، جس میں مولانا انوارالحق، مفتی منیب الرحمن، مولانا حنیف جالندھری، شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک، مولانا عبدالمصطفی ہزاروی، ڈاکٹر عطاء الرحمن، مولانا یاسین ظفر، علامہ قاضی نیاز حسین نقوی شامل تھے۔ اس ملاقات میں وزیر مذہبی امور صاحبزادہ نورالحق قادری اور وزیر تعلیم شفقت محمود سمیت دیگر شرکا کے سامنے اتحاد تنظیمات پاکستان کے علمائے کرام نے اپنے مطالبات پیش کئے، جس میں 14 نکات شامل تھے۔ ان میں اتحاد تنظیمات کو وفاقی سطح پر ڈیل کرنا، مدارس کے معاملات وزارت تعلیم سے کرنا، مدارس کی رجسٹریشن کسی ایک ادارے سے ہوں، متعدد کے بجائے کوئی ایک سرکاری ادارہ کوائف جمع کرے، بیرون ممالک سے پاکستان کے مدارس میں پڑھنے کے خواہشمندوں کو اجازت دینا، کھالیں جمع کرنے پر پابندی کیوں، علمائے کرام کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنے، آڈٹ کے باوجود بینک اکاؤنٹس پر پابندی نہ لگانے، اگر وزیر اعظم واقعی مخلص ہیں تو مساجد کو بجلی کے بل سے مستثنی قرار دیں، یکساں نصاب تعلیم کے سلسلے میں مدارس کی جانب سے ہر قسم کے تعاون کی پیشکش، عربی زبان کو لازمی قرار دینے، چھٹی جماعت تک ناظرہ اور ساتویں سے 12 ویں جماعت تک قرآن کریم مع ترجمہ لازمی قرار دینے کا بل پاس کرنا، اردو کو صحیح معنوں میں بحیثیت قومی زبان رائج کرنا اور 14 ویں نمبر پر جمعہ کی چھٹی بحال کرنا شامل تھے۔ اتحاد تنظیمات مدارس کے وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات پر مولانا فضل الرحمان نے قاری محمد حنیف جالندھری سے شکوہ کیا کہ ’’میں نے تقریباً انہی مسائل کو لے کر آل پارٹی کانفرنس رکھی ہے، اس لئے آپ اس ملاقات پر نظر ثانی کریں‘‘۔ تاہم مولانا حنیف جالندھری نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ ’’ہم ضرور اس پر غور کرتے، مگر میرے ساتھ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے دیگر علمائے کرام بھی ہیں، جن کو راضی کرنا مشکل ہوگا۔ لہذا ہم آپ کو اپنے مطالبات دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی اے پی سی میں شرکت کر کے اگلا لائحہ عمل طے کریں گے‘‘۔
8 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمان کی جانب سے دینی جماعتوں اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے نمائندگان کو دعوت دی گئی، جس میں تمام جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اس اے پی سی میں پہلی بار مولانا فضل الرحمان کو دینی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ خود وفاق المدارس کے علمائے کرام کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اجلاس میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے جنرل سیکریٹری مولانا محمد حنیف جالندھری نے مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ ’’آپ کے زیادہ تر مسائل ہمارے مدارس اور علمائے کرام کے حوالے سے ہی ہیں، جو ہمارے لئے خوشی کی بات ہے۔ مگر چونکہ آپ کی شخصیت سیاسی حوالے سے زیادہ پہچان رکھتی ہے، اس لئے ہمارے مسائل کو آپ سیاسی حوالے سے سپورٹ کریں۔ اس کو آپ انتخابی سیاست کی نظر نہ ہونے دیں۔ آپ نے ہر دور میں ہمارے مسائل کو اٹھایا ہے، مگر اب کی بار کیونکہ آپ حکومت کا حصہ نہیں، اس لئے آپ کی بات کو سیاسی پیرائے میں لیا جائے گا۔ جبکہ ہم نے اپنے مسائل اتحاد تنظیمات مدارس کی جانب سے حکومت کے سامنے رکھے ہیں۔ انہوں نے ہمیں کچھ روز دیئے ہیں۔ اگر ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے تو ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے‘‘۔ اس کے بعد اہل تشیع علما کی جانب سے کہا گیا کہ ’’پہلی بار ہمیں بھی ایسی کسی مجلس میں بلایا گیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ آئندہ بھی ہمیں مدعو کریں اور یوں اجتماعی سطح پر مسائل کو حل کیا جائے‘‘۔ اس موقع پر ختم نبوت سے متعلق تنظیموں کے علمائے کرام نے کہا کہ ’’ہمارے مسائل کے حل کے لئے بھی باقاعدہ فورم بنے ہوئے ہیں، جن پر ہم آواز اٹھاتے ہیں۔ آپ کی توانا آواز اگر ہمیں سپورٹ کرے تو یہ ہم دونوں کے لئے بہتر ہے‘‘۔ اس اجلاس میں موجود ایک عالم دین کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو پہلی بار دفاعی صورت حال کو سامنا کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جبکہ اس سے قبل ہمیشہ مولانا فضل الرحمان کی بات کو ہی تمام علمائے کرام تسلیم کرتے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے جس طرح اے پی سی سے توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ بری طرح ناکام ہو گئی ہیں۔ جس کے بعد حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک چلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دینی قیادت اور علمائے کرام کے وفود مدارس و مساجد سمیت نصاب اور دیگر معاملات پر حکومت سے خود ملاقات کرکے مسائل حل کرانا چاہتے ہیں۔ اب مولانا فضل الرحمان کی جانب سے سندھ اور کراچی کے علمائے کرام کے ساتھ بھی ایک مشاورتی اجلاس کیا گیا، جس میں آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post