امت رپورٹ
الیکشن کمیشن پاکستان نے 14 اکتوبر کو 36 حلقوں میں ضمنی الیکشن کرانے کے تمام ضروری اقدامات مکمل کر لئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے بقول حکمراں پارٹی اپنی خالی کردہ نشستوں میں سے بیشتر دوبارہ حاصل کر لے گی۔ تاہم اس کے باوجود تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں اپ سیٹ کا خوف لاحق ہے۔ اس کا سبب حالیہ چند ہفتوں میں اوپر تلے ہونے والی چند غیر متوقع ڈویلپمنٹ ہیں۔ ضمنی الیکشن، قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 25 سیٹوں پر کرائے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی ان 11 نشستوں میں سے 8 اور صوبائی کی 25 سیٹوں میں سے 12 پر پنجاب میں مقابلہ ہو گا۔
ضمنی انتخابات میں عموماً حکمراں پارٹی کو ایڈوانٹیج ہوتا ہے۔ تاہم ذرائع کے بقول پی ٹی آئی قیادت کو خدشہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بالخصوص پنجاب میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ بعض سیٹوں پر اپ سیٹ کر سکتی ہے اور ایسا ہونے کی صورت میں پنجاب کی اتحادی حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔ اور یہ کہ آنے والے دنوں میں اگر تحریک انصاف سے وابستہ 8 سے 10 ارکان پنجاب اسمبلی اِدھر اُدھر ہو گئے تو اپوزیشن پارٹیاں وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان خدشات کے پیش نظر تحریک انصاف نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن پر خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ دیگر صوبوں میں اسے ایسا کوئی چیلنج درپیش نہیں۔
تحریک انصاف کی پنجاب حکومت اس وقت محض 24 ارکان کی برتری سے قائم ہے۔ اس میں پی ٹی آئی کے 176 اور قاف لیگ کے 10 ارکان شامل ہیں۔ اس طرح کل تعداد 186 بنتی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد 162 ہے۔ اگر اس میں پیپلز پارٹی کے 7 ارکان اور دو آزاد ارکان اسمبلی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 171 تک جا پہنچتی ہے۔ اس صورت میں بھی اگرچہ پنجاب حکومت کو خطرہ نہیں ہو گا۔ لیکن اس کے نتیجے میں پہلے سے کمزور پنجاب حکومت کی پوزیشن مزید متاثر اور برتری 24 سے کم ہو کر 15 تک آجائے گی۔ پنجاب حکومت کے حوالے سے پی ٹی آئی قیادت کو لاحق خدشات کا ایک سبب پنجاب اسمبلی میں ہونے والے غیر متوقع تجربات بھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسپیکر کے الیکشن میں جب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چوہدری پرویز الٰہی 201 ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے تو یہ نون لیگ کے لئے ایک زبردست دھچکا تھا۔ کیونکہ دونوں پارٹیوں کے کل ارکان کی تعداد 186 ہے، لیکن پرویز الٰہی نے 15 زائد ووٹ حاصل کئے۔ یہ ووٹ نون لیگی ارکان کے تھے۔ تاہم کچھ عرصے بعد پی ٹی آئی کی خوشیاں ماند پڑ گئیں جب وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں اتحادیوں کے مشترکہ امیدوار عثمان بزدار 186 ووٹ لے سکے۔ یوں انہیں پرویز الٰہی سے 15 ووٹ کم ملے۔ نون لیگ کے ایک عہدیدار کے مطابق وہ پارٹی ارکان صوبائی اسمبلی جنہوں نے پرویز الٰہی کو ووٹ ڈالے تھے، صوبائی قیادت کی کوششوں سے واپس لیگی کیمپ میں لوٹ آئے۔ لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب ان ارکان کے ووٹوں سے محروم رہے۔ ذرائع کے مطابق یہ تجربہ پی ٹی آئی کے لئے پریشان کن تھا۔ لیکن اسے اصل جھٹکا پنجاب میں سینیٹ کے حالیہ ضمنی الیکشن کے موقع پر لگا۔ یہ نشست گورنر پنجاب چوہدری سرور کے استعفے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ اس انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر شہزاد وسیم نے 181 ووٹ لے کر میدان تو مار لیا، تاہم انہیں پنجاب اسمبلی میں اپنی کل Strength یعنی 186 سے بھی 5 ووٹ کم ملے۔ جبکہ شکست کھانے والے نون لیگی امیدوار اپنی اصل تعداد سے زیادہ ووٹ لے گئے۔ ذرائع کے مطابق اس صورت حال سے پی ٹی آئی قیادت تاحال پریشان ہے۔ چونکہ رائے شماری خفیہ تھی، لہٰذا فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اپنے سینیٹ امیدوار کو ووٹ نہ ڈالنے والے پی ٹی آئی ارکان صوبائی اسمبلی کون ہیں۔ جبکہ لاہور میں موجود نون لیگی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے 10 سے 12 ارکان صوبائی اسمبلی کے ساتھ ان کی پس پردہ بات چیت چل رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر ارکان وہ ہیں، جنہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد یا عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی جوائن کی تھی اور اب نظر انداز کئے جانے پر برہم ہیں۔ لیگی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد پی ٹی آئی کے ان ناراض ارکان کو ساتھ ملا کر وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور کیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی سے بھی بات کی گئی، جس کے 7 ارکان پنجاب اسمبلی میں موجود ہیں۔ ذرائع کے بقول پلان یہ تھا کہ اگر ضمی الیکشن میں نون لیگ صوبائی اسمبلی کی 6 سے 7 سیٹیں حاصل کر لیتی تو پی ٹی آئی کے ناراض ارکان اور پیپلز پارٹی کو ساتھ ملا کر وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی جاتی۔ ایک لیگی عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ رانا مشہود کے بیان سے تحریک انصاف میں شامل کرائے گئے ارکان پنجاب اسمبلی میں مایوسی تھی اور وہ نون لیگ کی طرف دیکھ رہے تھے۔ لیکن شہباز شریف کی گرفتاری نے پلان کو متاثر کر دیا۔ تاہم عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود مسلم لیگ ’’ن‘‘ پوری طاقت سے ضمنی الیکشن میں اتر رہی ہے۔ اور اس کی کوشش ہے کہ لاہور میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی کی دو سیٹوں سمیت کم از کم 8 سے 9 سیٹیں نکال لی جائیں۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں سنیاریو تبدیل ہونے پر اگر تحریک انصاف سے ناراض 8 سے 10 ارکان اپنا الگ گروپ بناتے ہیں تو نون لیگ ان ارکان کے ساتھ مل کر ایک بار پھر اپنے متاثرہ پلان پر عمل کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج سے اگرچہ فوری طور پر پی ٹی آئی کی مرکزی اور پنجاب حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم مستقبل قریب میں اگر ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) جیسی اتحادی پارٹیاں اپنے راستے الگ کر لیتی ہیں تو یہ نتائج پی ٹی آئی کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ مرکز میں بھی تحریک انصاف کی اتحادی حکومت محض 4 ووٹوں کی برتری سے قائم ہے۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد 7 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد 4 ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے الگ ہو جانے پر بھی حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اپنے مطالبات پورے کرنے کے لئے دونوں پارٹیوں نے حکومت کو تین ماہ کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ مزید ایک وزارت کے علاوہ کراچی کے لئے 50 ارب روپے کا پیکیج حاصل کرنا ہے۔ جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے چھ نکات پر مکمل عمل درآمد کی خواہش مند ہے۔ جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق اختر مینگل کے چھ نکات میں شامل لاپتہ افراد کی بازیابی اور ایم کیو ایم کو 50 ارب کے کراچی پیکیج کا وعدہ پورا کرنا حکومت کے لئے مشکل ہے۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں امکان ہے کہ یہ دونوں اتحادی پارٹیاں اپنے راستے الگ کر لیں۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کو مستقبل قریب کی ان مشکلات کا ادراک ہے۔ لہٰذا اس کی کوشش ہے کہ ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی کم از کم 8 سیٹیں اور صوبائی اسمبلی کی 18 سے 20 نشستیں جیت کر اتحادی پارٹیوں کی ممکنہ بلیک میلنگ سے بچنے کے انتظامات کرلے۔ لہٰذا حالیہ ضمنی الیکشن پی ٹی آئی کے لئے عام انتخابات جیسی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے بھی تحریک انصاف پریشان ہے۔ اس مفاہمت کے تحت پیپلز پارٹی پنجاب کے تمام حلقوں میں نون لیگ کے امیدواروں کو سپورٹ کرے گی۔ تاہم صرف رحیم یار خان میں صوبائی حلقے سے پیپلز پارٹی کا امیدوار کھڑا ہو رہا ہے۔ یہاں اسے نون لیگ کی سپورٹ حاصل ہو گی۔ اس طرح کراچی میں بھی نون لیگ، پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو سپورٹ کرے گی۔
ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی جن سیٹوں پر الیکشن ہو رہے ہیں، ان میں این اے 131 لاہور، این اے 124 لاہور، این اے 103 فیصل آباد، این اے 35 بنوں، این اے 243 کراچی، این اے 69 گجرات، این اے 65 چکوال، این اے 63 راولپنڈی، این اے 60 راولپنڈی، این اے 56 اٹک اور این اے 53 اسلام آباد شامل ہیں۔
’’امت‘‘ کے سروے کے مطابق ان میں سے پانچ حلقے این اے 35 بنوں، این اے 53 اسلام آباد، این اے 63 راولپنڈی، این اے 65 چکوال اور این اے 69 گجرات ایسے ہیں، جہاں تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹی قاف لیگ کی کامیابی آسان دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ چار حلقوں این اے 56 اٹک، این اے 60 راولپنڈی، این اے 103 فیصل آباد اور این اے 243 کراچی میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ اسی طرح دو حلقوں این اے 131 اور این اے 124 میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی کامیابی کے امکانات ہیں۔
ضمنی الیکشن صوبائی کی 25 نشستوں پر ہو رہے ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ پنجاب کی 12 سیٹوں پر ہے اور اس کے نتائج مستقبل قریب یا بعید میں صوبائی حکومت پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ سروے رپورٹ کے مطابق ان 12 نشستوں میں سے چھ حلقوں پی پی 3 اٹک، پی پی 27 جہلم، پی پی 103 فیصل آباد، پی پی 222 ملتان، پی پی 261 رحیم یار خان اور پی پی 292 ڈیرہ غازی خان میں پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان ٹف مقابلے کا امکان ہے۔ ان میں ایک سیٹ پر نون لیگ کا حمایت یافتہ پی پی پی امیدوار الیکشن لڑ رہا ہے۔ تاہم حکمراں پارٹی ہونے کا ایڈوانٹیج حاصل ہونے پر زیادہ توقع یہی ظاہر کی جا رہی ہے کہ ٹف مقابلے کے بعد بیشتر سیٹیں پی ٹی آئی لے اڑے گی۔ اسی طرح پنجاب میں صوبائی کے تین حلقوں پی پی 87 میانوالی، پی پی 201 ساہیوال اور پی پی 272 مظفر گڑھ سے تحریک انصاف کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ پی پی 296 راجن پور سے پی ٹی آئی کا امیدوار اویس خان دریشک بلا مقابلہ منتخب ہو چکا ہے۔ دوسری جانب صوبائی کے تین حلقوں پی پی 118 ٹوبہ ٹیک سنگھ، پی پی 164 لاہور اور پی پی 165 لاہور سے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدواروں کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں۔
٭٭٭٭٭