کراچی (رپورٹ: اقبال اعوان) بلوچستان کی سمندری حدود میں شکار پر غیر اعلانیہ پابندی سے کراچی کے ہزاروں ماہی گیر بیروزگار ہونے لگے۔ ماہی گیر کشتیوں کو گڈانی سے واپس کیا جا رہا ہے، جس کے باعث ایک ہزار بڑی لانچوں کے مالکان اور کئی ہزار ماہی گیر پریشان ہیں۔ بلوچستان میں شکار پر پابندی سے برآمدات متاثر اور سمندری خوراک میں کمی آنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ماہی گیر تنظیموں کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے محکمہ فشریز میں رابطوں اور اعتماد کے فقدان سے باعث سی فوڈز تباہی سے دوچار ہوجائے گی، جبکہ ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کی سرکاری تنظیم فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی مسئلے کے حل سے چشم پوشی اختیار کر رہی ہے۔ کراچی سے ان لانچوں کو بلوچستان جانے دیا جاتا ہے جو بھاری بھتہ ادا کرتے ہیں اور واپس نہ جانے والی لانچوں پر فائرنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کراچی، بدین، سجاول، ٹھٹھہ، چوہڑ جمالی سمیت سندھ کے ساحلی علاقوں میں سمندر میں مچھلی اور جھینگے کے شکار کیلئے لگ بھگ 8ہزار سے زائد چھوٹی بڑی لانچیں جاتی ہیں، تاہم کراچی کی قطرہ لانچیں اور دیگر بڑی 1500سے زائد لانچیں شکار کیلئے جاتی ہیں، جو فشری، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، مبارک ولیج، ماڑی پور گریکس اور جزیروں سے جاتی ہیں۔ ایک جانب کراچی سمیت سندھ کے ماہی گیر بدین تک کے علاقوں کے قریب سے سر کریکس تک جاتے ہیں، جبکہ ایک ہزار سے زائد لانچیں بلوچستان کے سمندری حدود میں جاتی ہیں۔ جو گوادر، تربت، پسنی، اوڑ مارہ اور دیگر بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور بحیرہ عرب میں شکار کرتی ہیں۔ بلوچستان سے شکار کراچی لا کر فشری پر فروخت ہوتا ہے۔ بلوچستان کی ہر حکومت کو مسئلہ ہوتا ہے کہ کراچی سمیت سندھ والے ماہی گیر ان کا شکار لے کر جاتے ہیں اور فوائد سندھ حکومت حاصل کرتی ہے، انہیں بھی ٹیکس کے نام پر حصہ ملنا چاہئے، تاہم بلوچستان و سندھ حکومتوں کے محکمہ فشریز آپس میں رابطہ نہیں کرتے اور من مانی کی جاتی ہے۔گزشتہ کئی سال سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ بلوچستان فشری کے لوگ اور سمندر میں وڈیروں کے لوگ اپنے سمندری علاقوں میں گھومتے ہیں، جو لانچیں بھتہ فکس کرکے آتی ہیں، ان کو آنے دیا جاتا ہے۔ بعض ذرائع کے بقول قطرہ لانچیں ماہانہ ایک لاکھ روپے اور دیگر لانچیں 50ہزار روپے ماہانہ بھتہ ادا کرتی ہیں۔ گزشتہ کئی سال میں کراچی سے جانے والی لانچوں کو واپس نہ جانے پر فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ لانچیں روک کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور لوٹ مار تک کی گئی۔ اب دوبارہ یہ مسئلہ گزشتہ 3ماہ سے تیز ہوگیا ہے۔ اب کراچی فشری اور دیگر مقامات سے جانیوالی لانچوں کو روکا جا رہا ہے اور وہ گڈانی سے واپس آجاتی ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے محکمہ فشریز کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور بلوچستان میں صورتحال خراب ہو رہی ہے، اگر صورتحال یہی رہی تو ماہی گیروں کی جانوں کو خطرات ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان کے سمندر میں وڈیروں اور فشریز کے اہلکاروں سے سیٹنگ کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، جبکہ لگ بھگ ایک ہزار سے زائد لانچوں کو مسئلہ ہو رہا ہے اور شکار بندش کی صورت میں ماہی گیروں کی بے روزگاری کے علاوہ مالکان کا نقصان ہوگا اور سی فوڈز کی کمی آئے گی۔ بعض لانچیں ایسی ہیں کہ جو مالکان نے ایم ایم ڈی میں رجسٹرڈ نہیں کرائی ہیں۔ وہ لانچیں زیادہ تر چھوٹی مچھلی کا شکار کرتی ہیں، جن پر 60 سے 65 ماہی گیر ہوتے ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ محکمہ فشریز سندھ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی اس مسئلے کو حل کرائے ورنہ شدید احتجاج کیا جائے گا۔