ایس اے اعظمی
سعودی صحافی جمال خشوگی کی گمشدگی کے پیش نظر ان کی گھڑی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ عالمی جریدے ’’وائرڈ‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کی پُراسرار گمشدگی کا راز ’’ایپل واچ‘‘ ملنے سے ہی کھل سکتا ہے، کیونکہ جس وقت جمال اپنی منگیتر ہاتیز کو سفارتخانہ کے باہر چھوڑ کر اندر گئے تھے تو ان کی کلائی میں جدید ڈیجیٹل گھڑی بندھی ہوئی تھی، جس کی مدد سے ان کی ممکنہ موت کے وقت کا بھی پتا چلایا جاسکتا ہے، کیونکہ اس گھڑی میں وائی فائی کنکشن ہوتا ہے۔ اگر ان کی کلائی سے گھڑی اُتاری جاچکی ہے تو بھی ان کی موت کا وقت معلوم کیا جاسکتا ہے اور ان کی دل کی دھڑکن رکنے کا وقت بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمال خشوگی کی یہ گھڑی اس وقت کہاں ہے۔ جریدے کے نامہ نگار روبے گانزالیز کا استدلال ہے کہ یقیناً ترک تفتیش کاروں کے نزدیک جمال کی کلائی میں بندھی ایپل واچ اہم ترین اشارہ ہے۔ ترک پراسیکیوٹر کے دفتر نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی ایک ٹیم جو جدید ٹیکنالوجی پر قدرت رکھتی ہے، جمال کی گھڑی اور اس کی اہمیت پر کام کررہی ہے، جس کا ڈیٹا ان کے موبائل سے منسلک ہے۔ اس سے ترک تفتیشی ٹیم جلد اہم سوالات کے جوابات حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس جدید گھڑی میں نصب سافٹ ویئر میں ایک اہم چیز ’’فٹنس ٹریکر‘‘ ہے، جس سے مطلوبہ تاریخ اور وقت پر جمال خشوگی کی دل کی دھڑکن کا بآسانی علم کیا جا سکتا ہے۔ جریدے وائرڈ نے بتایا ہے کہ کیلی فورنیا میں پولیس نے ایپل واچ کی مدد سے ایک شخص کے قتل کا پتا چلالیا تھا جبکہ اسی طرز پر خشوگی گمشدگی کیس میں بھی ایپل واچ ترک اور سعودی دعووں میں سے فرق بیان کرسکتی ہے کہ کو ن سا فریق سچ بول رہا ہے۔ واضح رہے کہ جمال خشوگی کی منگیتر ہاتیز چنگیز نے ترک تفتیش کاروں کو جمال کا وہ آئی فون دے دیا تھا، جس سے ان کی ایپل واچ کنیکٹ تھی۔ مڈل ایسٹ آئی کے نمائندے ڈیوڈ ہرسٹ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسے ترک تفتیش کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب جمال خشوگی سفارتخانہ میں داخل ہوئے تو ان کا ایک شخص نے استقبال کیا اور ان کو قونصل جنرل کے دفتر میں لے جایا گیا جہاں سے ان کو دو افراد نے گھسیٹ کر قونصل خانہ سے متصل دوسری عمارت میں پہنچایا اور انہی دونوں افراد نے جمال کو قتل کیا اور ان کا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ سعودی حکام خشوگی کے قتل کے حوالہ سے تمام رپورٹس کو سختی سے رد کرتے ہیں۔ مڈل ایسٹ آئی کے نامہ نگار ڈیوڈ ہرسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ 2 اکتوبر سے پہلے بھی خشوگی 28 ستمبر کو قونصل خانہ میں تشریف لائے تھے اور انہوں نے متعلقہ کاغذات بھی طلب کئے تھے لیکن ان کو قونصل جنرل کے توسط سے ایک انٹیلی جنس آفیسر سے ملاقات کو کہا گیا جس نے ملاقات پر خشوگی کو اگلے ہفتے میں ٹیلی فون کرکے آنے کو کہا اور ان کو ایک موبائل فون نمبر دیا کہ آنے سے قبل وقت لے لیں۔ منگل 2 اکتوبر کوجمال خشوگی نے اس موبائل فون نمبر پر کال کی اور استفسار کیا کہ اگر ان کے کاغذات تیار ہیں تو وہ لینے آجائیں، اس فون کال پر ان کو بتایا گیا کہ ان کی اپائنمنٹ دوپہر ایک بجے ہے۔ ترک تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ سفارت خانہ اہلکاروں نے ان کو ایک بجے کا وقت دیا جب کہ ڈیڑھ بجے لنچ اور نماز کا وقفہ کیا جاتا ہے اور قونصل اسٹاف ایک گھنٹے کیلئے بریک کرتا ہے اور کام بند ہوتا ہے، لیکن جب سعودی سفارت خانہ کا عملہ لنچ/ نماز بریک پر گیا تو ان کو کہا گیا کہ بریک کے بعد کام نہیں ہوگا کیونکہ ایک سطحی سفارتی میٹنگ ہونے والی ہے۔ اس دن خشوگی ایک بج کر 14منٹ پر سفارت خانہ کے دروازے پر پہنچے جہاں ان کا اندر داخلے پر استقبال کیا گیا اور قونصل جنرل آفس لے جایا گیا جہاں کچھ دیر بعد دو افراد داخل ہوئے اور خشوگی کو زبردستی گھسیٹتے ہوئے ایک دوسری عمارت کے کمرے میں لے گئے اور ان کو ممکنہ طور پر قتل کردیا گیا، قتل کیسے کیا گیا اس بارے میں ترک حکام نے خاموشی اختیار کی لیکن مزید بتایا کہ ہلاکت کے بعد خشوگی کی لاش کو ایک تیسرے کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ان کی لاش کے ٹکڑے الگ الگ کردیئے گئے۔ مڈل ایسٹ آئی کا دعویٰ ہے کہ برطانوی انٹیلی جنس نے کہا ہے کہ جمال خشوگی کو نشہ آور دوا بھی دی گئی تھی۔ ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی قونصل خانہ میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 22 ہے، جس میں سے صرف تین یا چار گاڑیوں اور ڈرائیورز کو شامل تفتیش کیا جائے گا۔ مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ جمال خشوگی کی سفارت خانے میں آمد کے بعد سہ پہر تین بج کر 15منٹ پر ایک گاڑی قونصل جنرل کی رہائش گاہ تک گئی، جو چند سو میٹر دور واقع ہے۔ ترک پراسکیوٹر جنرل چاہتے ہیں کہ استنبول میں سعودی قونصل جنرل کے گھر کا بھی فارنسک جائزہ لیا جائے اور ان کے باغ کی تلاش کی جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی قونصل جنرل نے اپنی تمام سرگرمیاں کئی دنوں سے محدود کی ہوئی ہیں۔ اگرچہ سعودی حکام نے قونصل خانہ کی تلاشی کی اجازت ترک حکام کو دی تھی، لیکن بعد ازاں سعودی حکام نے یہ پیشکش واپس لے لی۔ اسی دوران ترک پولیس ان تمام رجسٹرڈ سعودی گاڑیوں کو اپنی تحویل میں کسی محفوظ مقام پر رکھ کر ان کی فارنسک ٹیسٹنگ کرنا چاہ رہی تھی، لیکن سعودی حکام نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ ادھر ترک، سعودی اور عالمی میڈیا نے بتایا ہے کہ جلا وطن سعودی صحافی جمال خشوگی کو تلاش کرنے کیلئے امریکہ، ترکی اور سعودی حکام نے جوائنٹ ٹیم بنا دی ہے اور یہ ٹیم خشوگی کی پُر اسرار گمشدگی سمیت مبینہ قتل کی واردات کے نکات پر مشترکہ تحقیقات کا آغاز کرچکی ہے، جبکہ برطانوی جریدے گارجین اور خلیجی نیوز چینل الجزیرہ نے ترک اور امریکی انٹیلی جنس کے حوالہ سے بتایا ہے کہ ترک حکام نے حساس آلات کی مدد سے سفارت خانہ کے اندر خشوگی کی چیخ و پکار کی آوازیں ریکارڈ کی تھیں، جن سے یقین کیا جاسکتا ہے کہ سفارت خانہ کے اندر ہی جمال خشوگی کو قتل کیا جاچکا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق سفارت خانہ میں خشوگی کی ریکارڈنگ کی آوازیں لرزہ خیز تھیں۔ برطانوی جرید ے نے لکھا ہے کہ 2 اکتوبر کو جب خشوگی سعودی قونصل خانہ میں داخل ہوئے تھے تو کچھ ہی دیر کے بعد جمال خشوگی اور بعض افراد کے درمیان عربی زبان میں نا خوشگوار گفتگو اور اس کے بعد جمال خشوگی کی چیخوں کی آواز یں ریکارڈ کی گئیں۔ ادھر ترک میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی قونصل خانہ کے اندر تلاشی کیلئے ترک تفتیشی ٹیم کو اجازت ملی ہے لیکن کہا جارہا ہے کہ قونصل خانہ کے اندر سعودی قونصل جنرل کے گھر کی تلاشی لینے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے بعد ترک ٹیم نے اندر سفارت خانہ کی تلاشی کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ گارجین کی اپنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترک حکام نے اس سلسلہ میں ویڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کی موجودگی کا دعویٰ کیا ہے لیکن ایک تفتیش کار نے اعلیٰ ترک قیادت کو بتایا ہے کہ سفارت خانہ کے سعودی حکام نے یہ دعویٰ کرکے انہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ 2 اکتوبر کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر سفارت خانہ کے اندر موجود سی سی ٹی وی کیمرے کام کرنا بند کرچکے تھے۔ اس ضمن میں ترک تفتیشی افسران کا خیال ہے کہ تمام کیمرے کارگزار تھے، لیکن ایک منظم طریقہ پر ان کیمروں کی ہارڈ ڈرائیوز علیحدہ کردی گئی تھیں۔ تاکہ وہ مناظر کو ریکارڈ نہ کرسکیں۔ ادھر امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو ایک ذریعہ نے بتایا ہے کہ اخشوگی کو سعودی عملے کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ گفتگو میں امریکی انٹیلی جنس حکام کا ماننا تھا کہ ترک حکام نے سعودی سفارت خانہ کی اندرونی گفتگو کی ریکارڈنگ کیلئے خاص حساس ڈیوائس پلانٹ کی ہوئی ہیں، لیکن وہ اس ضمن میں سعودیوں پر یہ بات واضح نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ترک انٹیلی جنس اور سیکورٹی حکام ایک نکتہ پر متفق ہیں کہ جمال خشوگی کو سفارت خانہ کے اندر قتل کیا جاچکا ہے۔ جبکہ امریکی حکام دوہری حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ امریکی حکام اس نکتہ پر تو اتفاق کرتے ہیں کہ خشوگی کو قتل کیا جاچکا ہے لیکن وہ اس معاملہ پر سعودی عرب کو بلیک میل کرنے کیلئے مستقبل کی پلاننگ کررہے ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس معاملہ کو دیکھ رہے ہیں لیکن سعودیوں سے تعلقات خراب نہیں کریں گے، کیونکہ سعودی عرب کو اسلحہ کی فروخت سمیت سعودی سرمایہ کاری سے امریکی کار خانے چلتے ہیں اور اسی سے ہزاروں امر یکیوں کی روزی روٹی بھی جڑی ہوئی ہے۔ برطانو ی جریدے انڈپنڈنٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس ہر مخالف کو اغوا کرکے راستے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ اس سلسلہ میں جرمنی میں جلا وطنی گزارنے والے ایک سعودی شہزادے پرنس خالد بن فرحان السعود نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس حالیہ ایام میں کم از کم 30 بار ان کو جرمنی میں سعودی سفارت خانہ میں بلوانے کی کوشش کرچکی ہے، لیکن ہر بار انہوں نے سعودیوں کو منع کیا، کیونکہ انہیں علم ہے کہ اگر وہ سفارت خانہ میں گئے تو ان کا انجام بہت برا ہوگا۔ ان کے بقول جو فرد بھی ولی عہد محمد بن سلمان سے اختلاف رکھتا ہے اس کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post