نجم الحسن عارف
پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ان کے ماتحت چار سابق رجسٹرار اور ایک سابق ایڈیشنل رجسٹرار کی گرفتاری کے بعد نیب نے ان کا 10 روز کیلئے ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ یونیورسٹی کے ان اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والی تمام شخصیات کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور من پسند افراد کو میرٹ اور قواعد سے ہٹ کر ملازمتیں دینے کا الزام ہے۔ ان ملازمتوں میں گریڈ سترہ اور اس سے اوپر کی اسامیوں میں بڑی تعداد لیکچرارز وغیرہ کی ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کی جانب سے 2013ء سے 2016ء کے دوران کی گئی ناجائز تقرریوں سے خواتین کی بڑی تعداد بھی فیض یاب ہوئی۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر کامران کے ساتھیوں میں ہم نوالہ، ہم پیالہ ہونے کی حد تک ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر اور ایڈیشنل رجسٹرار کامران زاہد زیادہ اہم تھے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے انتہائی معتمد ساتھی اور سابق خزانچی پنجاب یونیورسٹی راؤ شریف کی گرفتاری کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جو ڈاکٹر مجاہد کامران کی آشیرباد سے طلبا و طالبات کی جمع ہونے والے فیسوں پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق اپنے من پسند افراد کو یونیورسٹی میں بطور لیکچرارز ملازمت دینے کے معاملات میں بڑی تعداد کو بعدازاں سنڈیکیٹ اور دوسرے یونیورسٹی فورمز سے ریگولرائز کرایا جاتا رہا۔ اس لئے ان معاملات سے ڈاکٹر مجاہد کامران اور ان کے ساتھی سزا سے بچ بھی گئے تو حکومت وقت کے کہنے پر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو جعلی ڈگریاں دینے اور ان کی جعلی ڈگریوں کی تصدیق کرنے کا معاملہ انہیں لے ڈوبے گا۔ سابق کنٹرولر حضرات بھی نہیں بچ سکیں گے۔ جبکہ کئی موجودہ سابق ارکان اسمبلی بھی نیب کی زد میں آجائیں گے۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم کردار سابق صوبائی وزیر خواجہ عمران نذیر کا رہا، جنہوں نے سابقہ حکومت کے رابطہ کار کے طور بہت سے ارکان کی ڈگریوں کے معاملات ٹھیک کرانے کیلئے یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران و دیگر کو استعمال کیا۔ بلکہ اپنے امتحانی ریکارڈ کو بھی مبینہ طور پر غائب کراکے اپنی ڈگری کو درست تسلیم کرا لیا۔ ذرائع کے مطابق سابق وائس چانسلر مجاہد کامران نے اپنی اعلیٰ خدمات کے باعث بطور وائس چانسلر ایک سے زائد بار توسیع لینے کی کوشش کی۔ نیز یونیورسٹی کے وائس چانسلر، رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات اور خزانچی کے عہدے پر بالعموم اپنے پسند کے افراد کو عبوری چارج کے ساتھ تعینات کیا۔ اور یہ عہدے عام طور پر پروفیسر حضرات اور شعبہ جات کے چیئرمین کو سونپتے رہے جو ان کے اشاروں پر جائز ناجائز میں فرق ختم کرکے کام کرتے تھے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مختلف شعبوں کے سربراہ ہونے اور تعلیمی شعبے کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود خالصتاً انتظامی عہدوں پر تعیناتی کیلئے تیار رہنے والے مذکورہ بالا حضرات خوب جانتے تھے کہ ان سے ڈاکٹر کامران غیر قانونی کام لیں گے، لیکن اس کے باوجود یہ ’’معزز اساتذہ‘‘ دستیاب ہوتے رہے۔ بلکہ ’’شریک جرم‘‘ رہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر، ڈاکٹر راس مسعود، ڈاکٹر امین اطہر اور کامران عابد وغیرہ بنیادی طور پر اساتذہ ہی تھے، جنہوں نے ڈاکٹر کامران کی وائس چانسلر شپ کو لمبے عرصے تک چلانے میں مدد دینے کیلئے رجسٹرار اور کنٹرولر وغیرہ کے عہدوں تک آنا قبول کیا۔ ذرائع کے مطابق طریقہ واردات یہ تھا کہ اپنی پسند کے افراد کو ملازمت دینے کیلئے پہلے سے راہ ہموار کرلی جاتی تھی اور بعد میں انہیں سنڈیکیٹ وغیرہ سے ریگولرائز کرا لیا جاتا تھا۔ اسی طرح یونیورسٹی میں انتظامیہ اور دفتری معاملات چلانے کیلئے مقامی ایم پی اے، ایم این اے وغیرہ کی سفارش پر بھرتیوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بعدازاں کسی نہ کسی طرح انہیں قانونی ’’کور‘‘ دے دیا جاتا۔ البتہ سابق خزانچی راؤ شریف کے توسط سے مالی معاملات میں ہونے والی بدعنوانیوں کو اگر نیب نے دیکھ لیا تو بڑے بڑے انکشافات ہوں گے۔ کیونکہ سالہا سال تک یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی فیس تک کھائی جاتی رہی اور یونیورسٹی کو کروڑوں روپوں کا نقصان پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق ان مالی بدعنوانیوں کی جو شخص نشاندہی کرتا یا شکایت کرتا اسے تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح جو کنٹرولر امتحانات وائس چانسلر کے احکامات کی روشنی میں ارکان اسمبلی کی ڈگریوں کے معاملات میں تعاون نہیں کرتا تھا اسے صاف لفظوں میں ڈاکٹر مجاہد کامران انتباہ کر دیتے کہ تم اس طرح اس عہدے پر نہیں رہ سکو گے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی جعلی ڈگری کے ایشو پر وائس چانسلر نے کھل کر ہدایات دیں، حتی کہ شہباز حکومت نے بھی اس سلسلے میں سفارش کی کہ گیلانی صاحب کے بیٹے کی مدد کی جائے۔ ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں نئے ہوسٹلز کی تعمیرات، و دیگر ترقیاتی منصوبوں پر بھی متعلقہ شعبے کے ذمہ دار وائس چانسلر کی ناک کے نیچے پیسہ بناتے رہے۔ لیکن آج تک کسی کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ ذرائع کے مطابق اگر نیب نے پنجاب یونیورسٹی کے چھ بڑوں سے ریمانڈ کے دوران واقعی تفتیش کی تو کئی اور پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آئیں گے۔
٭٭٭٭٭