سرفروش

0

عباس ثاقب
بشن دیپ نے ابتدا میں اپنے پسندیدہ موضوع پر بات کرنے کے بجائے مجھ سے انگلینڈ میں میرے مشاغل کے بارے میں پوچھا۔ میں نے قدرے سوچ کر اپنی گڑھی ہوئی کہانی جزئیات سمیت سنانا شروع کی۔ ’’میرے بابا جی کو واہگورو نے بلایا تو میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں جیوگرافی پڑھ رہا تھا، لیکن بریڈ فورڈ میں بابا جی کا ریسٹورنٹ سنبھالنے کے لیے میں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی‘‘۔
بشن دیپ نے کہا۔ ’’یہ تو بہت سمجھ داری کا کام کیا بھائی۔ اپنا کام تو پوری توجہ مانگتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’دراصل بابا جی کے ایک بہت ہی عزیز دوست محمد سلیمان گزشتہ دس سال سے ریسٹورنٹ کی تمام ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ بابا جی بھی محض نگرانی کرتے تھے۔ میں بھی سلیمان چاچا کے کام میں بہت کم مداخلت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ انتہائی قابلِ اعتماد ہی نہیں، اپنے کام میں ماہر بھی ہیں۔ وہ خود ہی مجھے ریسٹورنٹ چلانے کے گُر سکھاتے رہتے ہیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور وہ مجھے اپنے بیٹے کی جگہ سمجھتے ہیں‘‘۔
میں نے اسے بتایا کہ مجھے کرکٹ سے گہری دلچسپی ہے اور میں کلب کی سطح تک کرکٹ کھیل چکا ہوں۔ بشن دیپ نے بتایا کہ وہ کبھی کرکٹ کھیلا تو نہیں، البتہ اسے دیکھنے سے کافی دلچسپی ہے۔ وہ ان دنوں جاری ہندوستان پاکستان کرکٹ سیریز کے روکھی پھیکی ہونے کا گلہ کرتا رہا۔ البتہ میں نے دونوں ملکوں کے کرکٹ مقابلوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔
حسبِ توقع وہ رفتہ رفتہ اپنے پسندیدہ موضوع پر آگیا۔ ’’دیکھ میرے بھائی تیغ بہادر، اگر تمہارا تعلق ہندوستانی پنجاب سے ہوتا تو میں اس موضوع پر تم سے کبھی بات نہ کرتا۔ لیکن کیونکہ تم کو ہماری قوم کی تاریخ کا کچھ نہیں پتا، اس لیے یہ سب تمہارے علم میں لانا چاہتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بشن دیپ بھائی، آپ وہ الگ دیس والی بات تفصیل سے بتائیں۔ مجھے اس میں دلچسپی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ سب مجھے پہلے کسی نے نہیں بتایا‘‘۔
بشن دیپ سنگھ نے چند لمحوں تک خاموش رہ کر گویا اپنے خیالات یکجا کیے اور پھر کہا۔ ’’پہلی بات تو یہ کہ ہماری قوم کے لیے الگ دیس کی سوچ رکھنے والوں کی اکثریت اپنے وطن کے لیے خالصتان نام پر متفق ہے۔ یہ نام ہماری قوم کے ایک دور اندیش سپوت ڈاکٹر ویر سنگھ بھٹی نے مارچ 1940ء میںایک پمفلٹ میں تجویز کیا تھا۔ جو مسلمانوں کی جماعت کی طرف سے لاہور میں اپنے جلسے میں اپنا الگ وطن بنانے کے سنکلپ (قرارداد) کے جواب میں لکھا گیا تھا۔
میں نے اپنی دلچسپی ظاہر کرنے کے لیے لہجے میں اشتیاق بھرتے ہوئے پوچھا۔ ’’اس پمفلٹ میں اور کیا لکھا تھا؟‘‘۔
بشن دیپ نے ایک نظر اونگھتے ہوئے باپ پر ڈالی اور پھر جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر ویر سنگھ کا کہنا تھا کہ پاکستان دھرم کی بنیاد پر بنایا جارہا ہے اور پنجاب کے بہت سے ایسے حصے پاکستان میں شامل کیے جارہے ہیں، جہاں بڑی تعداد میں سکھ آباد ہیں۔ اس لیے اس نے مطالبہ کیا کہ پنجاب کے کچھ علاقوں کو ملاکر خالصتان کے نام سے سکھوں کا بھی الگ ملک بنایا جائے۔‘‘
میں نے جلدی سے کہا۔ ’’انصاف کی بات کروں تو اس کا مطالبہ تو ٹھیک تھا‘‘۔
بشن دیپ نے قدرے اداس لہجے میں کہا۔ ’’لیکن اس کا خواب اس لیے حقیقت نہیں بن سکا، کیونکہ اس وقت پنجاب کے کسی ایک ضلع میں بھی سکھ اکثریت میں نہیں تھے۔ لیکن تقسیم ہند کے بعد چونکہ پاکستانی پنجاب سے سارے سکھ ہجرت کر کے ہندوستانی پنجاب کے ملحقہ ضلعوں میں چلے گئے تو وہاں کچھ ضلعوں میں سکھ اکثریتی علاقے وجود میں آنے لگے۔ البتہ خالصتان کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے یہ تبدیلیاں کافی نہیں تھیں‘‘۔
براہم دیپ سنگھ نے آنکھیں تو بند کر رکھی تھیں، لیکن ان کے کان شاید ہماری ہی باتوں پر لگے ہوئے تھے۔ ان کی برداشت جواب دے رہی ہوگی۔ چنانچہ ہماری بات یہیں تک پہنچی تھی کہ انہوں نے آنکھیں کھول دیں اور بظاہر بے تاثر لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔ ’’بیٹا بیٹھے بیٹھے کمر دکھ گئی ہے۔ تم ادھر اپنی سیٹ پر آجاؤ۔ میں ذرا کمر سیدھی کرلوں‘‘۔
میں نے بلا تعرض ان کی بات مان لی۔ بڑے صاحب نے اپنے بیٹے کی گود میں سر رکھا اور گھٹنے موڑ کر دو سیٹوں پر لیٹ گئے۔ اس طرح کم ازکم وقتی طور پر خالصتان کہانی ٹھہرگئی۔ البتہ پنجاب میل خاصی سبک رفتاری سے منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اگلے تین ساڑھے تین گھنٹے مزید کسی قابلِ ذکر واقعے کے بغیر گزرے۔
بالآخر ٹرین مہاراشٹر کے مشہور شہر ناسک کے ریلوے اسٹیشن پر رکی۔ بمشکل پانچ منٹ کا اسٹاپ تھا۔ چنانچہ بشن دیپ سنگھ مجھے اپنے ساتھ لے کر پلیٹ فارم پر اترا اور ہم دونوں جلدی جلدی ریلوے کینٹین سے کھانا لے کر واپس پلٹے اور لگ بھگ دوڑتے ہوئے حرکت کرتی ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہمیں دیکھ کر گھر والوں کی جان میں جان آئی۔ جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ہم ٹرین پر چڑھنے میں ناکام رہے ہیں۔
لگ بھگ چار گھنٹے بعد پنجاب میل نے بھوسا وال ریلوے اسٹیشن پہنچ کر ممبئی کے بعد پہلا طویل اسٹاپ کیا۔ ٹرین کی بوگیوں میں پانی بھرا جارہا تھا۔ مغرب ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ اگرچہ ہم میں سے کسی کو بھی زیادہ بھوک نہیں تھی، لیکن اس خیال سے کھانا خرید کر رکھ لیا گیا کہ جانے اب کتنی دیر میں کوئی اور بڑا ریلوے اسٹیشن آئے۔ میرا اندازہ تھا کہ ٹرین کم ازکم اڑھائی سو میل سفر طے کر چکی ہے۔
اس اثنا میں بشن دیپ کی بیوی رانی نیند پوری کر کے برتھ سے نیچے آچکی تھی۔ چنانچہ میں نے اس برتھ پر قبضہ جمالیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن تنہائی کے لمحات ملتے ہی دماغ صورتِ حال کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہوگیا۔ مجھے بلا ارادہ اس سکھ خاندان کا مہمان بننے کا موقع مل گیا تھا۔ لیکن پٹیالا سے اتنی دور رہ کر کیا میں اپنا کام بخوبی سر انجام دینے کے راستے ڈھونڈ پاؤں گا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر گاؤں میں رہنے کی وجہ سے مجھے مٹھو سنگھ اور اس کے گندے دھندے کا کھوج لگانے میں ذرا سی بھی مشکل پیش آئی تو پہلی فرصت میں پٹیالا منتقل ہو جاؤں گا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ گھرانا اس منتقلی میں بھی میری مدد کرے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More