امت رپورٹ
نواز شریف اور مریم نواز کی پراسرار خاموشی نے نہ صرف لیگی ووٹروں اور ہمدردوں کو مایوس کر دیا ہے، بلکہ پارٹی کے متعدد ارکان اسمبلی بھی الجھن کا شکار ہیں کیونکہ انہیں اصل صورت حال بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ’’امت‘‘ نے ایسے تین سے چار لیگی ارکان سے آف دی ریکارڈ بات کی تو انہوں نے واضح طور پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خود یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز نے پراسرار خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ ان ارکان کے بقول کیونکہ اصل صورت حال سے پارٹی کے قانون سازوں کو بھی آگاہ نہیں کیا جا رہا، لہٰذا اس حوالے سے ان میں بہت زیادہ کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ ان ارکان نے تصدیق کی کہ انہیں بھی اپنی اعلیٰ قیادت کی جانب سے یہ خبر ملی تھی کہ ضمنی الیکشن سے قبل نواز شریف اور مریم نواز لاہور میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔ اس کے لئے بھاٹی گیٹ کی جگہ کا انتخاب بھی کر لیا گیا تھا لیکن یہ مرحلہ نہیں آیا۔ ارکان کے مطابق ان سمیت پارٹی کے بیشتر ارکان اسمبلی کو اب تک یہ بھی نہیں معلوم کہ بیگم کلثوم نواز کا چہلم کس روز ہو گا۔ بیگم کلثوم نواز کا انتقال 11 ستمبر کو ہوا تھا۔ ارکان کے بقول اگرچہ 21 اکتوبر کو بیگم صاحبہ کے انتقال کے 40 دن پورے ہوں گے، لیکن عموماً لوگ پینتیس چھتیس دن بعد بھی چہلم کر لیتے ہیں۔ پارٹی کے حلقوں میں اس طرح کی باتیں کی جا رہی تھیں کہ محرم کا مہینہ گزرنے کے بعد کسی بھی روز چہلم رکھ لیا جائے گا، تاکہ ضمنی الیکشن سے پہلے جلسہ کیا جا سکے۔ محرم گزر گیا تاہم چہلم کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ نہ اس بارے میں کچھ بتایا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم ختم ہو چکی ہے۔ اور آج اتوار کو یہ معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے حامی اور ووٹر نواز شریف اور مریم نواز کے جلسے کا انتظار کرتے رہ گئے لیکن قید کے بعد عوام سے براہ راست رابطے کا یہ موقع پراسرار طریقے سے گنوا دیا گیا۔ سینئر پارٹی رہنما مشاہد اللہ خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا تھا کہ جلسہ کی تاریخ 12 اکتوبر رکھی گئی ہے۔ جس سے دو مقاصد حاصل کئے جائیں گے۔ ایک ’’یوم سیاہ‘‘ کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جائے گا اور دوئم، پنجاب اور بالخصوص لاہور میں ضمنی الیکشن لڑنے والے پارٹی امیدواروں میں ایک نیا جذبہ پیدا کیا جائے گا۔ کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے میڈیا کو آرڈینیٹر محمد مہدی نے بھی کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود 12 اکتوبر خاموشی سے گزر گیا اور ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔
ضمنی الیکشن سے قبل نواز شریف کے جلسے کی نوید سنانے والے ایک اور سینئر پارٹی عہدیدار سے دوبارہ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نیا دعویٰ یہ کیا کہ اگرچہ جلسے کی تیاریاں مکمل کی جا چکی تھیں، جس میں جارحانہ حکمت عملی کا اعلان کیا جانا تھا۔ تاہم پارٹی کے بعض اہم رہنمائوں نے پارٹی کے تاحیات قائد کو مشورہ دیا کہ ضمنی الیکشن کے اہم موقع پر کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہئے۔ لہٰذا 14 اکتوبر کی تاریخ گزر جانے کا انتظار کیا جانا چاہئے۔ عہدیدار کے بقول یہ مشورہ دینے والوں میں خود خواجہ سعد رفیق بھی شامل تھے، جو لاہور کے حلقہ این اے 131 سے ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ عہدیدار کے بقول اکثر پارٹی رہنمائوں کی جانب سے اس مشورے کی تائید ہونے پر نواز شریف حکمت عملی میں تبدیلی پر آمادہ ہو گئے۔ یوں ضمنی الیکشن سے قبل جلسہ اور جارحانہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ وقتی طور پر تبدیل کر دیا گیا۔ تاہم جب عہدیدار سے یہ استفسار کیا گیا کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ ہمیشہ سے 12 اکتوبر ’’یوم سیاہ‘‘ کے طور پر مناتی رہی ہے، حتیٰ کہ جلا وطنی کے دور میں بھی کم از کم اس دن ایک مذمتی بیان ضرور جاری کر دیا جاتا تھا۔ تاہم یہ پہلی بار ہے کہ نواز شریف یا پارٹی کی طرف سے یہ دن خاموشی کے ساتھ گزر گیا تو لیگی عہدیدار کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ اس کا بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکے کہ جیل سے بھی ابتدائی دنوں میں اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر پوسٹیں کرنے والی مریم نواز اب تک کیوں خاموش ہیں؟ عہدیدار کا اصرار تھا کہ ضمنی الیکشن میں لاہور اور اٹک کے علاوہ چند دیگر شہروں میں بھی مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے امیدواروں کی جیت کا واضح امکان ہے۔ لہٰذا 14 اکتوبر کے بعد مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سامنے واضح تصویر ہوگی۔ جس کو سامنے رکھ کر آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ اگر ضمنی الیکشن میں بھی 25 جولائی کے عام انتخابات کی طرح دھاندلی کی کوشش کی گئی تو پھر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی مجوزہ جارحانہ سیاست کو ایک اور جواز مل جائے گا۔ عہدیدار نے بتایا کہ بعض لیگی رہنمائوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اپنے اقدامات کی وجہ سے حکمراں پارٹی تحریک انصاف زیادہ عرصے چلتی دکھائی نہیں دے رہی، لہٰذا کچھ عرصے تک ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔
پارٹی کے تاحیات قائد سے قربت رکھنے والے بعض لیگی ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نواز شریف اس لئے خاموش ہیں کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب قرار پائے جانے کا رسک نہیں لینا چاہتے۔ ان کے کہنے پر ہی مریم نواز نے بھی خاموش رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ فی الحال پارٹی امور سے زیادہ میاں صاحب لندن جا کر اپنے بیٹوں سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔ تاکہ ان سے مل کر اپنی اہلیہ اور ان کی والدہ کا غم بانٹ سکیں۔ اسی لئے انہوں نے اپنا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی ہے۔ لاہور کے ضمنی انتخابات کے بارے میں ذرائع کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی حمایت کا اعلان ضرور کیا ہے لیکن اندرون خانہ اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ جس امیدوار کو چاہیں ووٹ دیں۔ دوسری جانب آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف کو تاحال حقیقی تعاون کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے باہر احتجاجی اجلاس میں بھی پیپلز پارٹی نے شریک ہونے سے گریز کیا۔ ذرائع کے مطابق یہ صورت حال بھی سابق وزیراعظم کے لئے پریشان کن ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post