لوٹی رقم واپس لانے کیلئےبرطانیہ سے معاہدہ ہوگیا-شہزاد اکبر
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہےکہ برطانیہ سے کرپشن کے مقدمات کھلوانے کا معاہدہ ہوچکا اور مقدمات کھلوانے اگلے ہفتے برطانیہ جارہے ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران شہزاد اکبر نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور میگا پراجیکٹس میں بدعنوانی کا سامنا ہے، کرپشن کے خاتمے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے، کرپشن کے معاملات اب ایف آئی اے تک محدود نہیں یہ جےآئی ٹی دیکھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے مقدمات کھلوانے اگلے ہفتے برطانیہ جارہے ہیں، برطانیہ کے ساتھ معاہدہ ہوچکا، نیشنل کرائم ایجنسی سے 33 کمپنیوں کی تفصیل مانگی ہے جب کہ اسحاق ڈار کی واپسی کیلئے برطانیہ سے درخواست کی ہے، برطانیہ سے ہمارا ملزمان کی واپسی یا منتقلی کا معاہدہ نہیں ہے جب کہ سوئس اکاؤنٹس میں 200 ارب ڈالر کا اسحاق ڈار ہی بتاسکتے ہیں، سوئس بینکوں میں موجود پاکستانی رقم واپس لانے کے معاہدے میں 5 سال ضائع کیے گئے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھاکہ غیر قانونی رقم واپس لانےکیلئے ہم چین اور یو اے ای سے بھی معاہدہ کررہے ہیں، بیرون ملک غیرقانونی طریقے سے رقم منتقل کرنے والے سیکڑوں ہیں، نام نہیں بتاسکتا۔وزیراعظم کے معاون خصوصی نے مزید کہا کہ پاکستان پر 30 ہزار ارب روپے کا قرضہ ہے، ورثے میں معاشی مشکلات کے سوا کچھ نہیں ملا، ماضی کی حکومتوں کی ناقص حکمت عملی سے معاشی مشکلات بڑھیں، قرضوں کا بوجھ ڈال کر ملکی معیشت کو تباہ کیا گیا، اداروں میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارے تباہ ہوئے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھاکہ پبلک سیکٹر کا خسارہ 10 کھرب سے تجاوز کرگیا ہے، ہم گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کی طرف جارہے تھے لیکن سابق حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔انہوں نے کہا کہ کالے دھن کو دیکھنے کی اشد ضرورت ہے، جس ملک سے بھی غیر قانونی رقم منتقلی کا سراغ ملا وہاں جائیں گے، لوگوں نے ملازمین کے نام پر کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں، فالودے والے، رکشے والوں کے نام پر کمپنیاں ہیں اور ان سے اربوں روپے نکل رہے ہیں، غریب لوگوں کے جعلی اکاؤنٹس میں پیسہ منتقل کیا جارہا ہے، غریبوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے اکاؤنٹس میں پیسہ کون منتقل کررہا ہے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کےایل این جی معاملے پر بھی کام ہورہا ہے اور ہوسکتا ہے ایل این جی کے معاملے پر نیب ریفرنس بنائے۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ پاناما میں شامل دیگر پاکستانیوں کیخلاف کارروائی کیلئے برطانیہ سے معاہدہ ہوگیا۔ پاناما لیکس اور پیراڈائز لیکس میں سوائے شریف خاندان کے کسی کے خلاف تحقیقات نہیں ہوئیں، اگر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرتی تو یہ معاملہ بھی دب جانا تھا، تمام تحقیقات کو نئے سرے سے شروع کرکے ان سے تفصیلات حاصل کر رہے ہیں، پاناما لیکس میں 33 سے زیادہ بی وی آئی آف شور کمپنیز ہیں، برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے دوبارہ ان کی تفصیلات مانگی ہیں، اگلے ہفتے زیر التوا کیسز کی فہرست لے کر لندن جاکر برطانوی ہم منصب سے ملاقات کروں گا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ چین اور بھارت اپنے شہریوں سے لوٹی گئی رقم واپس نکلوا چکے ہیں، دیگر ممالک کے اداروں کی مدد سے پاکستانیوں کے بے نامی اکاؤنٹس کا پتہ لگایا جائے گا، غیر قانونی رقوم واپس لانے کیلیے چین اور یواے ای سے بھی معاہدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لیے مختلف اکاؤنٹس اور کمپنیاں استعمال ہوتی ہیں، ایس ای سی پی کی تصدیق کے بغیر جعلی کمپنی کیسے رجسٹر ہوسکتی ہے، یہ نظام کی ناکامی ہے، کیا ایف بی آر ایسے لوگوں کو نہیں پوچھتا تھا، اسٹیٹ بینک کے نظام سے جعلی اکاؤنٹس خودبخود پکڑ میں آنے چاہئے تھے، ادارے پہلے بھی تھے لیکن حکمرانوں نے ذاتی مفاد کی وجہ سے کام نہیں کرنے دیا۔شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ اور میگا پراجیکٹس میں بدعنوانی کا سامنا ہے، ملتان میٹرو میں 30 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوئی، پاکستان سے سالانہ 10 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی جارہی تھی تاہم بدعنوانی کے خلاف تحقیقات کی نگرانی سپریم کورٹ خود کر رہی ہے۔