قسط نمبر: 237
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
بی بی ’’ کچھ بول تو سہی، کیا گھر پسند نہیں ہے؟‘‘۔ بڑی نے ماحول میں کچھ ظرافت کی لہر دوڑانے کی کوشش کی۔
بالآخر وزیر نے مہر سکوت توڑی۔ ’’بڑی باجی ہمارے اوپر تمہارے احسانات اتنے ہیں کہ ہم ان کا بدلہ اتار نہیں سکتے…‘‘۔
بڑی بیگم گھبرائیں کہ یہ تو انکار کی تمہید معلوم ہوتی ہے۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ وزیر نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکا اور کہا۔ ’’ایسا پیغام کسے قبول نہ ہو گا۔ یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے اور تمہاری محبت اور دلداری کہ ہمیں اس لائق سمجھتی ہو۔ پر ہمیں سوچنے کا کچھ موقع چاہئے۔ اچانک اتنی بڑی خبر سن کے، مانا کہ وہ ایک طرح کی خوش خبری ہی ہے، میرا جی بیٹھنے لگا ہے‘‘۔
’’اے ہے بنو بی بی، اس میں جی بیٹھنے کی کیا بات ہے۔ ابھی تیرے آگے پوری ڈھنڈھار عمر پڑی ہے۔ ان بیہڑ راہوں پر چلنے کے لیے کوئی تیرا ہاتھ پکڑنا چاہے، اور وہ کون، ہندوستان کا شاہزادہ جو کبھی تخت کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔ تو غور و تامل بے شک ضروری ہے پر ڈرنے یا جی چھوڑنے کی تو کوئی بابت نہیں‘‘۔
وزیر نے گہرا سانس لیا اور گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ ’’ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس۔ نہ جانے آگے ہمارے جوگ بیوگ میں کیا لکھا ہے‘‘۔
’’آگے کا حال تو اللہ ہی جانے ہے۔ پر ابھی جو باتیں نظر کے سامنے ہیں وہ تو امید سے بھری ہوئی ہیں، کہ نہیں؟‘‘۔
’’ہاں پر اب تک تو سارے گلابی رنگ وقت آنے پر کالک پتے ہی نکلے ہیں۔ خیر، شکوے تو اللہ میاں سے ہیں اور عمر بھر کے ہیں۔ اور تم سچ ہی کہتی ہو، کیا جانے اسی خلطے میں کچھ خوبی پنہاں ہو۔ ہائے میرے اللہ میں کیا کروں‘‘۔
اگر بڑی بیگم کو یہ توقع تھی کہ ولی عہد سوئم بہادر کی نکاحی بننے کے امکان کی صورت دیکھ کر چھوٹی پھولی نہ سمائے گی تو انہیں چھوٹی کی باتیں سن کر اور اس کا حال دیکھ کر بہت مایوسی، بلکہ کچھ جھنجھلاہٹ بھی ہوتی۔ لیکن ان کے دل میں خود ہی چور تھا کہ وزیر کی روح میں بھری ہوئی نارسائیوں اور لب بام پہنچ کر شکستگی کمند کی کڑوی بوندیں اسے کسی نئی مہم حیات کی طرف مائل نہ کریں گی۔ بہت سوچ کر وہ چھوٹی کو کچھ جواب دینا چاہتی تھی کہ وزیر پھر بولی: ’’بڑی باجی، میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ اپنا گھر آباد کر کے اپنے بچوں کو اجڑ جانے دوں یا ان سے پیٹھ موڑ لوں، یہ کیوں کے ہو سکے ہے؟‘‘۔
’’بچوں کے بارے میں سوچیں گے، ابھی ان لوگوں نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ہے۔ لیکن اگر رکھی بھی تو کیا ہوا۔ اللہ رکھے نواب مرزا کچھ دن میں شادی بیاہ کر کے اپنا گھر الگ بسائے گا، اور شاہ محمد آغا صاحب کو میں رکھ لوں گی‘‘۔
’’نہیں، بچوں کو چھوڑنا میرا ہی منصب مقرر ہوا ہے کیا؟ اور تم خود ہی کہتی ہو کہ نواب مرزا کی اب شادی بیاہ کی عمر ہے۔ بھلا مجھ بوڑھی کو یہ کیونکے سوہے گا کہ جوان بیٹا گھر میں ہو اور میں بڈھی اپنا بیاہ رچاتی پھروں؟‘‘۔
’’بی بی، نہ تو بڈھی ہے نہ ہی بیاہ رچا رہی ہے۔ بڈھی ہوتی تو ولی عہد تیرا خواہاں کیوں ہوتا۔ اور بیاہ رچانا، قرآن کے سائے میں ڈولا چڑھنا، بابل گیتوں کے شور میں آنکھیں پونچھتی ہوئی بدا ہونا، یہ سب تیرے کام نہیں۔ تیرے لیے تو اللہ کی طرف سے نئی راہ کھل رہی ہے۔ جو تجھے سیدھے
لاہوری دروازے سے ہو کر حویلی میں لے جاتی ہے‘‘۔
’’پھر بھی نواب مرزا سے تو پوچھنا ہی ہو گا‘‘۔
’’ضرور پوچھیو۔ کوئی ایسا کام تیرے شایان شان نہیں جس میں بڑے بیٹے کی مرضی نہ شامل ہو۔ اور رہی دوسری بات…‘‘۔ بڑی بیگم کچھ کہتے کہتے رک سی گئیں۔
’’دوسری بات کون سی؟‘‘۔ وزیر نے بڑی بیگم کو چپ دیکھ کر اسے بولنے پر مائل کرنے کی کوشش کی۔ اکبری خانم کو نواب مرزا دل سے پسند تھا۔ فاطمہ کے بارے میں بھی انہیں اندازہ تھا کہ وہ بھی نواب مرزا کو پسند کرتی ہے۔ اور فاطمہ کے اوپر نواب مرزا کی پروانگی تو اس پر خوب عیاں تھی۔ چھوٹی بھی شاید نواب مرزا کے احوال دلی سے بے خبر نہ تھی۔ لڑکے والی ہونے کی حیثیت سے نسبت اور نکاح کے باب میں سلسلہ جنبانی چھوٹی کی طرف سے ہونی چاہئے تھی۔ لڑکی والی کی طرف سے رشتے کی بات یا اشارہ ہونے کے بالمقابل تو بڑی بیگم بیٹی کا گھر بیٹھے رہنا اور اپنی جگہ پر مر جانا بہتر سمجھتی تھیں۔ لیکن اس وقت عجب مرحلہ آ پڑا تھا۔ چھوٹی کو مرزا فخرو کے ساتھ نکاح پر راضی کرنا بہت ضروری تھا اور اسی ضمن میں یہ بات آپڑی تھی۔ نا معلوم چھوٹی کے دل میں کو ن سا تکلف، کون سی غیریت پنہاں تھی کہ وہ ایسے موقع پر بھی نواب مرزا کی نسبت کے بارے میں کوئی اشارہ نہ کر رہی تھی۔ بہت تامل کے بعد اکبری خانم نے کہا: ’’اے دوسری بات کون سی ہوتی۔ تو ہی تو نواب مرزا کی بابت کہہ رہی تھی کہ اب ان کی بارات چڑھنے کے دن ہیں‘‘۔
اب وزیر کے چپ ہونے کی باری تھی۔ سوچ سوچ کر اس نے کہا۔ ’’جی تو میرا بہت چاہتا ہے… پر یہی سوچتی ہوں کہ کہیں نوکری سے لگ جائے یا شاعر ہی کچھ ٹھکانے کا ہو چلے تب تم سے ایک بات اس کے باب میں کہتی‘‘۔
بڑی بیگم کی جان میں جان آئی۔ بات کو حسب دلخواہ بڑھانے کے لیے ایک راستہ کھل گیا تھا۔ ’’بھئی ہم تو سمجھتے ہیں لڑکا ذات کا سبھائو اور گھر بار دیکھا جاتا ہے۔ رہا بسر اوقات کرنے کے لیے، تو اللہ کا دیا ہمارے گھر میں بہت
کچھ ہے‘‘۔
وزیر کا منہ خوشی سے تمتما گیا۔ ’’تو تمہیں اس بات کا کوئی خیال نہ ہو گا کہ لڑکا کمائو نہیں؟‘‘۔
’’ہمیں جو مطلوب ہے اس کا ذکر ہم نے کر تو دیا ہے بی بی۔ نواب مرزا جیسے تمہارا بیٹا ہے ویسے ہمارا بھی ہے۔ اور فاطمہ جیسے ہماری بیٹی ہے اسی طرح تمہاری بھی ہے۔ نہ گھر بدلیں گے نہ دل بدلیں گے۔ بس ہمارے مولوی جی سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں بھی سب باتیں میں ٹھیک کرا دوں گی‘‘۔ بڑی بیگم اپنی مخصوص ہلکی سی ہنسی ہنسیں، قلقل مینا جس نے سنی ہو وہ بڑی کی ہنسی کا اس سے کچھ اندازہ کر سکتا تھا۔
’’تمہاری طرف سے بلاوا تو آئے۔ مگر تم تو گنبد میں بسم اللہ کے گم صم بیٹھی ہوئی ہو‘‘۔
’’نہیں بڑی باجی، میں تو دل و جان سے فاطمہ کو چاہتی ہوں اورمجھے لگتا ہے نواب مرزا بھی بہت خوش ہوں گے، بس میرا ہیائو نہ کھلتا تھا۔ اللہ تمہیں سلامت رکھے، میرے سینے سے ایک بڑا بوجھ تم نے اتار لیا‘‘۔
اکبری خانم نے دوبارہ چھوٹی کی بلائیں لیں اور کہا۔ ’’میری بچی۔ اللہ تجھے خوش رکھے اور تیری ہر بات موسم بہار اور چمپا کے جھاڑ کی طرح کھلے اور پھولے پھلے۔ انشاء اللہ دونوں باتیں بہت جلد عمل میں آجائیں گی‘‘۔
’’لیکن بڑی باجی، مجھے سوچنے اور نواب مرزا سے مشورہ کرنے کے لیے تھوڑی مہلت ضرور چاہئے‘‘۔
’’بے شک، میں کب کہتی ہوں کہ تو ابھی اسی وقت نکاح بندھا لے۔ پہلے اپنے دل کو مطمئن کر لے، جس حد تک کوئی ان چیزوں میں دل کو مطمئن کر سکتا ہے۔ میں ایک دو دن مین دوبارہ پھیرا کر لوں گی‘‘۔
’’اور بڑی باجی…‘‘۔
’’ہاں، کیا بات ہے‘‘۔ اکبری خانم نے کہا۔ ’’کوئی اور شک ہو تو دور کر لے‘‘۔
’’میں شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو چھوڑ کر نہ جائوں گی‘‘۔
’’بھئی ان باتوں کا کیا مذکور ہے؟ تیری شرطیں سب وہاں پہنچا دی جائیں گی۔ پہلے تو دل تو پکا کر لے‘‘۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔ مجھے معلوم ہے تم میرے حق میں بہتر ہی کرو گی‘‘۔ (جاری ہے)