عمران خان
منی لانڈرنگ کے انکشافات نے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے بینکوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے منی لانڈرنگ میں معاون بینکوں کے خلاف حتمی کارروائی کیلئے لائحہ عمل تیار کرلیا ہے۔ ملک بھر کے کمرشل بینکوں میں جون 2016ء سے پہلے تک کھولے گئے 4 کروڑ 30 لاکھ سے زائد بینک اکائونٹس کی بائیو میٹرک تصدیق کروائی جائے گی۔ تمام اکائونٹس کا ریکارڈ کمرشل بینکوں کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ کرکے اسے براہ راست اسٹیٹ بینک کے مرکزی ڈیٹا سسٹم سے منسلک کر دیا جائے گا اور ان تمام اکائونٹس کے ذریعے ہونے والی غیر معمولی اور مشکوک ٹرانزیکشن کی مانیٹرنگ کیلئے اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی استعداد بھی بڑھائی جارہی ہے۔
ذرائع کے مطابق جون 2016ء میں نافذ ہونے والے قوانین کے تحت بینک بائیو میٹرک تصدیق کے بعد اکائونٹ کھولنے کے پابند ہیں، جس کے بعد سے لے کر اب تک ملک بھر کے بینکوں میں 70 لاکھ سے زائد اکائونٹس کھلے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ملک بھر کے تمام بینکوں میں مجموعی طور پر 5 کروڑ سے زائد بینک اکائونٹس قائم ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے نجی بینکوں کو جون 2016 میں پابند کیا گیا تھا کہ کوئی بھی بینک اکائونٹ کی بائیومیٹرک تصدیق کے بغیر نہیں کھولا جاسکے گا۔ تاہم اس سے قبل بھی ملک بھر کے بینکوں میں 4 کروڑ 30 لاکھ سے زائد اکائونٹس موجود تھے، جن کی اب تک بائیو میٹرک تصدیق نہیں کی جاسکی۔ تاہم اب یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ تمام بینک اکائونٹس کی بائیو میٹرک تصدیق کی جائے، جس کی تمام تر تفصیلات جلد جاری کی جائیں گی۔
ذرائع کے بقول اس اہم فیصلے کے پس منظر میں حالیہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق شامل ہیں، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک میں قائم نجی کمرشل بینکوں میں خلاف ضابطہ اور غیر قانونی بینک اکائونٹس کی بھر مار ہے، جن کو منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تحقیقات میں ایسے مشکوک اور بے نامی اکائونٹس سامنے آرہے ہیں، جو تقریباً تمام ہی نجی بینکوں میں کھولے گئے۔ جے آئی ٹی ممبران نے اربوں روپے کی بینک ٹرانزکشنز میں 77 بے نامی اور مشکوک اکائونٹس کی چھان بین کے دوران ان شہریوں کو طلبی کے نوٹس ارسال کئے، جن کے کوائف پر مذکورہ بینک اکائونٹس کھولے گئے تھے۔ ان میں فالودہ بیچنے والا، نوجوان طالب علم، رکشہ ڈرائیور، محکمہ تعلیم کی ایک ماتحت ملازمہ اور دیگر کئی افراد شامل ہیں، جنہوں نے اربوں روپے اپنے بینک اکائونٹس میں موجود ہونے پر حیرت کا اظہار کیا۔ پے در پے واقعات سامنے آنے پر اسٹیٹ بینک انتظامیہ کو ہوش آیا اور کمرشل بینکوں میں جاری خلاف قانون سرگرمیوں اور ان کی من مانیوں کے آگے بند باندھنے کیلئے اعلیٰ سطح کی میٹنگ بلائی گئی۔
ان اکائونٹس کو کھولنے اور چلانے میں منی لانڈرنگ کرنے والے ملزمان کو بینکوں کی انتظامیہ اور افسران کی مکمل حمایت حاصل رہی، جس کے عوض افسران اور بینکوں کی انتظامیہ میں شامل افراد کو بھی مالی فوائد ملتے رہے۔ تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ کمرشل بینکوں میں کھولے گئے اکائونٹس کیلئے تمام غیر قانونی حربے استعمال کئے گئے۔ کہیں شہریوں کی شناخت چوری کرکے اکائونٹ کھولے گئے تو کہیں شہریوں کو دھوکہ دے کر ان سے ان کی شناختی دستاویزات لی گئیں۔ تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ سب سے زیادہ کھاتے سیلری اکائونٹ کے نام پر کھولے گئے۔ اس قسم کے طریقہ کار میں سینکڑوں کمپنیوں کے ملازمین سے کمپنیوں کے شعبہ اکائونٹس کے افسران نے شناختی کارڈز کی فوٹو کاپیاں لیں ملازمین سے کہا گیا کہ ان کے بینک اکائونٹس کھولے جا رہے ہیں، تاکہ انہیں تنخواہیں ان کے اکائونٹس میں جاری کی جاسکیں۔ تاہم ہزاروں واقعات میں ان کے شناختی کوائف استعمال کرکے ان کے علم میں لائے بغیر ان کے ان ناموں پر بینک اکائونٹس کھولے گئے، جنہیں کمپنیوں کے مالکان اور شعبہ اکائونٹس کے افسران از خود آپریٹ کرتے رہے۔ اس کیلئے شناخت تو ملازمین کی استعمال کی گئی مگر دستخط کے ریکارڈ میں کمپنیوں کے مالکان اور شعبہ اکائونٹس کے افسران کے دستخط چلائے جاتے رہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اس طرح کے زیادہ تر فراڈ سمٹ بینک، سونیری بینک، این آئی بی بینک، سلک بینک، حبیب میٹرو پولیٹن بینک، الائیڈ بینک، مسلم کمرشل بینک میں کئے جاتے رہے۔ 10 برس میں ایف آئی اے کے کمرشل بینکنگ سرکل میں ایسی درجنوں انکوائریاں کی گئیں، جن میں بینک افسران کی ملی بھگت سے دھوکے بازوں نے شہریوں کے کوائف استعمال کرکے اکائونٹ کھلوائے اور ان اکائونٹس کو مالیاتی فراڈز اور غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا، جس پر نہ صرف مقدمات درج کئے گئے بلکہ ان بینکوں کے درجنوں افسران گرفتار بھی ہوئے۔ذرائع کے بقول یہاں یہ حقیقت قابل غور ہے کہ اس پورے عرصے میں اسٹیٹ بینک کا کردار انتہائی غیر فعال اور مایوس کن رہا، کیونکہ کمرشل بینکوں کیلئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے لاگو کردہ بینکنگ قوانین کے تحت تمام بینک اس بات کے پابند تھے کہ وہ اکائونٹ کھلوانے والے شہری کی موجودگی میں اکائونٹ کھولیں۔ اس کے علاوہ ان اکائونٹس میں رقم کی ٹرانزیکشن کرنے کیلئے بھی اکائونٹ ہولڈر بذا ت خود آرہا ہے یا نہیں، اس امر کی تصدیق بھی بینک کی ذمے داری ہوتی ہے۔ تاہم کئی کمرشل بینک اپنا بزنس بڑھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ اکائونٹس کھولنے اور زیادہ سے زیادہ رقم اپنی برانچوں میں ڈپازٹ کرنے کی لالچ میں قوانین توڑتے رہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کبھی بھی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے حالانکہ اسٹیٹ بینک کو ملک میں بینکنگ سیکٹر کی مانیٹری اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے اور اسٹیٹ بینک کسی بھی خلاف ورزی پر سخت سے سخت ایکشن لینے کا مجاز ہے۔ حتیٰ کہ غیر قانونی اکائونٹ کھولنے اور ان جعلی اکائونٹس سے مالیاتی فراڈ سامنے آنے پر بینکوں کے لائسنس بھی معطل کئے جاسکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ برسوں میں ایسے درجنوں واقعات سامنے آئے جوکہ ایف آئی اے کی تحقیقات میں ثابت بھی ہوئے۔ تاہم آج تک اسٹیٹ بینک کی جانب سے کسی بینک کا لائسنس معطل نہیں کیا گیا اور نہ ہی بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔حالیہ عرصے میں کمرشل بینکوں کی خلاف قانون سرگرمیاں اس وقت متواتر سامنے آنا شروع ہوئیں جب سمٹ بینک، سندھ بینک اور یونائٹڈ بینک میں موجود 29 مشکوک اکائونٹس کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے انکشاف پر ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی گئی۔ اس مقدمہ میں سابق صدر آصف زرداری کے قریبی اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، ان کے بیٹے اے جی مجید، سمٹ بینک کے صدر حسین لوائی، سمٹ بینک کے چیئرمین عبداللہ لوتھا، اومنی گروپ کے دو اکائونٹس آفیسر، سمٹ بینک کے برانچ منیجر اور ایریا منیجر کے علاوہ سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور ،ڈی بلوچ کمپنی، ملک ریاض کے قریبی عزیز زین ملک وغیرہ کو نامزد کیا گیا۔ اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کچھ ایسے بینک اکائونٹس میں بھی ہوئیں جوکہ جعلی اور بے نامی تھے۔ ایسے بینک اکائونٹس کی تعداد 48 ہے جو حبیب میٹروپولیٹن بینک اور سلک بینک سمیت دیگر نجی بینکوں میں کھولے گئے اور یہ تمام اکائونٹس 2000 سے لے کر 2016 سے پہلے تک کھولے گئے۔اس ضمن میں جب ’’امت‘‘ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر سے سوال کیا گیا کہ ایسے نجی کمرشل بینکوں کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی جو کہ بینکنگ قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ یقینا ان بینکوں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور سفارشات میں جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ان کے لائسنس منسوخ کرنے کی نوبت آئی تو اس پر بھی عمل کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ عرصہ میں جو حقائق سامنے آئے ہیں اس کے بعد بینکوں کو قوانین کا پابند بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔٭