کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) نیب نے حکومت سندھ کی طرف سے پسندیدہ وکلا کو نوازنے کے لئے اسپیشل پراسیکیوٹرز تعینات کرنے کی تحقیقات شروع کر دی ۔محکمہ انصاف و پارلیمانی امور سندھ سے تفصیلات طلب کر لی گئیں۔ محکمہ انصاف نے مہارت کامظاہرہ کرتے ہوئے نیب کو فراہم کردہ تفصیلات سے
فاروق ایچ نائیک سمیت کئی وکلا اورفرمز کے نام غائب کر دئیے۔ خانہ پوری کے لئے صرف 12وکلا کی فہرست ارسال کر دی گئی ۔اس میں وہ 4 وکلا بھی شامل ہیں جو سندھ رینجرز کی طرف سے دہشتگردی کے 800 مقدمات کی پیروی کر رہے تھے۔دریں اثنا سندھ رینجرز کے ہٹائے گئے پراسیکیوٹرز بحال نہ ہو سکے۔ سانحہ بلدیہ سمیت دہشتگردی کے 800 مقدمات کی کارروائی بری طرح متاثر ہونے لگی۔پراسیکیوٹرز کی تبدیلی سے کیس کمزور اور دہشتگردوں کو فائدہ پہنچنے کا امکان بڑھ گیا۔تفصیلات کے مطابق پی پی حکومت کی طرف سے من پسند وکلا اور فرمز کو کروڑوں روپے کا مالی فائدہ پہنچانے کے لئے اسپیشل پراسیکیوٹرز کے طور پر تعینات کرنے کی نیب نے تحقیقات شروع کر دی ہے۔ نیب حکام کو موصول ہونے والی شکایت میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ انصاف و پارلیمانی امور کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برخلاف نجی وکلا کی خدمات حاصل کر کے انہیں کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ نیب حکام کو موصول ہونے والی شکایت کے ساتھ دستاویزات میں محکمہ ریونیو کے کیس کی پیروی کے لئے فاروق ایچ نائیک کو کی جانے والی ادائیگی کی تفصیلات بھی شامل ہیں ۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کی طرف سے پی پی کے رہنما اور سابق چیئرمین فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی نثار مورائی کو فراہم کردہ وکیل سمیت کئی اہم نام شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب نے موصول دستاویزات اور ٹھوس شواہد کی بنا پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے ۔ نیب حکام کی طرف سے لیٹر نمبر No.2001318/CVC-5752/
IO-5/NAB(K)2018/4078 جاری کرتے ہوئے سیکریٹری محکمہ انصاف و پارلیمانی امور سے کہا گیا ہے کہ نیب کو موصول ہونے والی شکایت کی بنا پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہے ۔ نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹاف کی طرف سے دریافت کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2014 سے لیکر اس وقت تک محکمہ انصاف و پارلیمانی امور کی طرف سے کتنے اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تقرری کی گئی ۔ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی بتایا جائے کہ جن اسپیشل پراسیکیوٹرز کی خدمات حاصل کی گئیں ان کو کتنا معاوضہ ادا کیا گیا اور تنخواہوں کی مد میں کتنی رقم ادا کی گئی ۔ رپورٹ کے پیرا سی میں کہا گیا ہے کہ انہیں اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تقرری کے طریقے اور اس سے متعلق قواعد و ضوابط بھی فراہم کئے جائیں ۔ اس لیٹر کے ساتھ نیب حکام نے ایک پرفارما بھی منسلک کیا تھا ۔ حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق محکمہ انصاف و پارلیمانی امور نے لیٹر نمبر No.SO(PI)/CPSD/01-02(62)
/2017/579 کے تحت سیکشن آفیسر آفتاب میمن کی طرف سے نیب حکام کو ادھوری تفصیلات فراہم کردی ہیں ۔ محکمہ انصاف کی طرف سے جوابی لیٹر کے ساتھ منسلک پرفارما میں بتایا گیا ہے کہ اسپیشل پراسیکیوٹرز کی تقرری کا اختیار وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہوتا ہے ۔ منسلک پرفارما کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ نے 8 اسپیشل پراسیکیوٹرز کی خدمات حاصل کیں جن میں ساجد محبوب شیخ کا تقرر یکم جنوری 2017 کو وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری سے کیا گیا ۔ انہیں 2 لاکھ روپے ماہانہ ادا کئے جا رہے ہیں۔ محمد انور کا تقرر یکم جولائی 2014 کو ہوا اور انہیں ایک لاکھ روپے مانہ ادا کئے جا رہے ہیں۔ افضل احمد کا تقرر یکم جولائی 2014 کو ہوا ۔ محمد طارق کا تقرر 24 اگست 2016 کو ہوا ۔ رانا خالد حسین کی خدمات 11 مارچ 2014 سے حاصل کی گئیں، محمد شہزاد انجم 11 اگست 2016 کو ہوا، مشتاق احمد جہانگیری کو 27 ستمبر 2013 کو اسپیشل پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا جبکہ محمد جاوید اعوان کی خدمات 2 اکتوبر 2014 کو حاصل کی گئیں ۔ ان تمام اسپیشل پراسیکیوٹرز کو ماہانہ ایک لاکھ روپے ادا کئے جا رہے ہیں۔ محکمہ انصاف نے جن 4 اسپیشل پراسیکیوٹرز کی خدمات حاصل کیں ۔ ان میں یاسر عرفات کا تقرر 29 اگست 2017 کو کیا گیا ۔ ان کی خدمات ایف آئی آر نمبر 17/149 کے کیس حوالے سے لیں گئیں ، جو زیر دفعہ 223/224/225A/114/17ATA تھا۔ ان کو مجموعی طور پر 50 لاکھ روپے ادا کرنے ہیں ، جن کی ادائیگی کا معاملہ پروسیس میں ہے۔ حاکم علی شیخ کا تقرر 2 جنوری 2017 کو کیا گیا ، جن کی خدمات 2 مقدمات کے سلسلے میں حاصل کی گئیں ، جنہیں 60 لاکھ روپے ادا کرنے ہیں ۔ ان کی ادائیگی کا معاملہ بھی پروسیس میں ہے۔ نصر اللہ کورائی کا تقرر 29 دسمبر 2017 کو دو مقدمات کی پیروی کے سلسلے میں کیا گیا ، جن کو 23 اگست 2018 کو ایک کروڑ روپے ادا کئے گئے۔ غلام مرتضیٰ بھٹو کا تقرر 9 دسمبر 2017 کو ناظم آباد تھانے کی ایک ایف آئی آر 197/2015 کی پیروی کے سلسلے میں کیا گیا تاہم پرفارما میں ان کی جانے والی ادائیگی کی کوئی تفصیل موجود نہیں۔ ان اسپیشل پراسیکیوٹرز کا تقرر بھی وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق نیب کو ارسال کردہ معلومات میں کئی اہم حقائق چھپائے گئے ہیں جن میں محکمہ ریونیو اور نثار مورائی سمیت مختلف مقدمات میں فاروق ایچ نائیک سمیت بھاری معاوضوں کے عیوض حاصل کی گئی ۔ مختلف فرمز اور وکلا کے نام فہرست میں شامل نہیں ۔دوسری جانب محکمہ انصاف و پارلیمانی امور سندھ نے رینجرز کے ہٹائے گئے پراسیکیوٹرز کی بحالی کے معاملے کو رواں سال جون سے التوا میں ڈال رکھا ہے ، جس کی وجہ سے دہشتگردی کے 800 سنگین مقدمات جن میں سانحہ بلدیہ فیکٹری سمیت 8 ہائی پروفائل کیس شامل ہیں کے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔حکومت سندھ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ میں سندھ رینجرز کی طرف سے ان مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلا کی ٹیم کی تنخواہیں بند کر دی تھیں ۔ ان اسپیشل پراسیکیوٹرز کی بحالی سے متعلق سندھ رینجرز کی درخواست کئی ماہ سے محکمہ انصاف میں زیر التوا ہے ۔ سندھ رینجرز کی طرف سے لکھے گئے مکتوب میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وکلا کی بتدیلی سے مقدمات کی کارروائی متاثر ہو سکتی ہے جس سے شہر کا امن خراب ہوگا۔ محکمہ داخلہ کی طرف سے رینجرز کی یہ درخواست محکمہ انصاف کو ارسال کر دی گئی تھی جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں فوری نمٹانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
Prev Post