دوسری قسط
احمد خلیل جازم
گجرات کے قصبے شیخ چوگانی میں مرزا محمد یونس بیگ سے بات چیت جاری تھی۔ اس نے شکوا کیا کہ ’’اس مزار کا بندوبست 1971ء میں محکمہ اوقاف نے حاصل کرلیا تھا اور اب محکمہ اوقاف کا ایک شخص یہاں ہر ماہ بعد آتا ہے۔ مزار پر موجود گلّے کا تالا کھولتا ہے اور جو کچھ گلے میںموجود ہوتا ہے، وہ اٹھا کر چلتا بنتا ہے۔ یہاں پر محکمہ اوقاف کا اور کوئی کام نہیں ہے‘‘۔ جب یہ باتیں ہو رہی تھیں تو ایک شخص ہمارے پیچھے آکر بیٹھ گیا۔ اس نے سگریٹ سلگا رکھا تھا۔ ہم نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ خاموش رہا، البتہ یونس نے بتایا کہ یہ محکمہ اوقاف کی جانب سے مزار پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ یونس ہمیں لے کر مہمان خانوں کی جانب چل نکلا۔ وہاں جاکر اس نے ہمیں حضرت طانوخؑ کے شجرہ نصب کے بارے میں دیوار پر چسپاں ایک فریم دکھایا، جس میں حضرت طانوخؑ کا شجرہ لکھا ہوا تھا۔ جس کے مطابق آپؑ، حضرت یعقوبؑ اور پھر حضرت یوسفؑ کی لڑی سے گیارہویں نمبر پر دکھائے گئے۔ اسی شجرے میں گج گراں میں واقع صاحب مزار حضرت موسیٰ حجازیؑ بھی موجود ہیں۔ آپؑ لیاہ بن راوی بن مراری بن موسیٰؑ کے شجرہ نسب سے منسوب ہیں۔ آپؑ کے ایک بھائی حضرت صفدانؑ بھی تھے۔
حضرت طانوخؑ کا بعض کتب میں نام حضرت تانوح یعنی ح سے لکھا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ بعض لوگوں نے خ سے لکھا ہے۔ مثلاً ’’کتب العارفین‘‘ کے صفحہ 139 پر آپؑ کا نام طانوح درج ہے۔ اسی کتاب نورالعارفین میں لکھا ہے کہ ’’حضرت طانوح کے مزار مبارک کے متعلق سید کبیر علی (شاہ دولہ دریائی) صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ موضع شیخ چوگانی کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک بلند ٹیلے پر حضرت طانوحؑ کا مزار پر انوار ہے۔ حضرت قاضی صاحب (حضرت سلطان محمود) کو بذریعہ کشف معلوم ہوا کہ حضرت طانوحؑ پیغمبر تھے اور بنی نوع آدم کی تخلیق کے شروع شروع کے زمانے میںاس طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ حضرت قاضی صاحب کے زمانے میں ان کی قبر کچی تھی۔ قاضی صاحب مرحوم اکثر اس مزار پر حاضر ہوتے رہتے تھے اور فیض باطنی حاصل کرتے تھے۔ حضرت قاضی صاحب کی ایما پر حضرت سائیں گوہرالدین اس مزار پر اکثر حاضر ہوا کرتے تھے‘‘۔ حضرت قاضی سلطان محمود ایک نابغہ رورزگار شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں مفتی ریاض احمد لکھتے ہیں کہ ’’کشف القبور کے پس منظر میں دیکھیں تو حضرت قاضی سلطان محمود کوئی معمولی علمی شخصیت نہیں کہ کسی کے ’’بہکاوے‘‘ کی بات کریں۔ پیر بابا سوات شریف نے حضرت قاضی سلطان محمود کو مزید حصول فیض کیلئے حضرت سید کبیرالدین شاہ دولہ دریائی کی طرف ہدایت و رہنمائی فرمائی۔ حصول فیض سے ممکن تھا کہ حضرت شاہ دولہ دریائی ان کی ہدایت و رہنمائی اس طرح کریں، جس طرح ایک زندہ استاد، زندہ شاگردکی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے۔ یہی صاحب مقامات کا مطلب تھا کہ اس کے حکم کے مطابق انہیں کشف القبور کی چابی مل گئی۔ یوں صاحب قبر سے حصول فیض ممکن تھا، تو حضرت قاضی سلطان محمود طریقت، معرفت و حقیقت کے سبق پڑھ سکتے تھے۔ کشف القبور کے ذریعے سے ہی حضرت قاضی سلطان محمود نے نو گزوں کے احوال و مقامات معلوم کیے‘‘۔
ان کتب کے حوالے سے یہ بات تو صراحت سے واضح ہوتی ہے کہ حضرت طانوخؑ کے مزار اقدس کے بارے میں حضرت شاہ دولہ دریائی نے بھی تصدیق کر دی تھی۔ جبکہ اس حوالے سے حافظ شمس الدین آف گلیانہ شریف نے بھی مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یونس کے ساتھ گفتگو کو دوبارہ جوڑتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ مزار پر کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں؟ تو اس کا کہنا تھا کہ ’’ویسے تو پورے پاکستان اور دنیا بھر سے عقیدت مند یہاں آتے ہیں۔ لیکن عرس کے دوران یہاں لوگوں کی آمد و رفت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اب حال ہی میں مزار کی تعمیر نو ہو رہی ہے۔ اور یہ تعمیر بھی حضرت گوہرالدین آف جیندڑ شریف کے پوتے یوسف صاحب اپنے پلّے سے کرا رہے ہیں‘‘۔ ہمار ے لیے یہ بات حیران کن تھی۔ کیونکہ یہاں اجارہ داری تو محکمہ اوقاف کی ہے اور گلّے کی تمام رقم محکمہ لے جاتا ہے۔ پھر تعمیرات کا کام جیندڑ شریف والے کیوں کرا رہے ہیں۔ اس پر یونس بیگ کا کہنا تھا کہ ’’محکمہ اوقاف تو ایک طرف سے دیوار جو کہ نچلی جانب گر رہی تھی، اس کا بجٹ نہیں دے سکا تو پھر مزار کی تعمیر نو کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ کام حضرت گوہر کے پوتے حضرت یوسف صاحب کرا رہے ہیں۔ حضرت آمنونؑ کے مزار کے معاملات ان کے دوسرے بیٹے کی لڑی سے جو پوتے ارشد صاحب ہیں، وہ دیکھتے ہیں۔ جبکہ حضرت طانوخؑ کے مزار کے معاملات یوسف صاحب جو ان کے دوسرے بیٹے کی اولاد ہیں، ان کے ذمے ہے‘‘۔ اس مزار کی کرامات کے احوال سے یونس کا دعویٰ تھا کہ ’’صاحب مزار کے پاس وہی آتا ہے، جسے آپ کی اجازت ہوتی ہو۔ ورنہ یہاں کوئی نہیں آسکتا۔ یہاں ہر شخص کسی نہ کسی حاجت کے بنیاد پر آتا ہے۔ کوئی بیٹے کی منت لے کر آتا ہے تو کوئی بیٹی کی۔ کوئی نوکری کی منت مانتا ہے اور کوئی گھر کی۔ صاحب مزار کسی کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔ یہاں منت کیلئے کوئی خاص دن مخصوص نہیں ہے‘‘۔ گفتگو کے دوران اس نے مزید کہا کہ ’’ہمارے دادا، پر دادا کہتے ہیںکہ ایک وقت تھا یہ جگہ ’’بھیکڑاں والا ٹبہ‘‘ کے طور پر شہرت رکھتی تھی۔ بھیکڑ ایک جھاڑی ہے، اسی لیے اس ٹبے کو بھیکڑاں والا ٹبہ کہتے تھے۔ اس وقت یہ عالم ہوتا تھا کہ اس قبر کی حدود میں کوئی ذی روح داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اور تو اور اس ٹبے کے اوپر سے کوئی پرندہ بھی نہیں گزرتا تھا۔ پھر صاحب مزار نے دو لوگوں کو یہاں آنے کی اجازت دی۔ ایک تو حضرت گوہرالدین اور دوسرے سرگودھا کے حافظ محمد رانجھا تھے۔ حافظ محمد رانجھا سرگودھا کے قریب گائوں واں میانی کے رانجھا خاندان کے جد امجد تھے۔ انہیں بھی یہیں سے فیض حاصل ہوا۔ رانجھا خاندان آج بھی اسی دربار کا مرید ہے اور وہ باقاعدگی سے یہاں آتے ہیں۔ حافظ صاحب اس دور میں پانچ صد مربع زمین کے مالک تھے۔ انہوں نے اس وقت پوری دنیا کا سفر کیا تھا اور سات حج کیے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر صاحب مزار اجازت دیں تو میں ان کے لیے سونے کا مزار تعمیر کرائوں۔ لیکن اس کی انہیں اجازت نہیں ملی۔ جب یہاں حضرت گوہرالدین نے مزار کی بنیاد رکھی تو پھر لوگوں سمیت ہر ذی رو ح کو یہاں آنے کی اجازت نصیب ہوئی۔ ورنہ یہاں کسی کو پر مارنے کی جرأت نہیں تھی۔ یہ جگہ دراصل ہمارے دادا پردادا کی تھی، جو چونسٹھ کنال اور کچھ مرلے پر مشتمل تھی۔ اسی قبرستان میں ہمارے باپ دادا کی قبریں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ اب تو صاحبِ مزار کا ہے۔ ویسے دنیا داری کے حساب سے آپ کو یہ بتا رہا ہوں۔ ہم نسل در نسل یہاں ڈیرے دار کے طور پر موجود ہیں۔ باہر سے جو مہمان آتے ہیں، ان کی خدمت ہم اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ یہاں پر محکمے کی جانب سے کسی قسم کے لنگر کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ بلکہ دور دراز سے آئے ہوئے لوگوں کے لیے ہم خدمت سر انجام دیتے ہیں۔ محکمہ اوقاف نے یہاں ایک دیوار کیلئے ستّر لاکھ روپے کا فنڈ ضرور منظور کرایا تھا لیکن وہ فنڈ ابھی تک ریلیز نہیں ہوسکا‘‘۔
حضرت طانوخؑ کی قبر مبارکہ کے سرہانے ایک بڑا سرخ رنگ کا کلاہ موجود تھا، جس پر کلمہ طیبہ لکھا تھا۔ قبر کے سرہانے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس کمرے کے اندر ایک دیوار پر کئی چھوٹے بڑے کلاہ ٹنگے ہوئے تھے۔ قبر پر ایک سکون آمیز خاموشی کا راج تھا۔ یہاں جو تختیاں لگی ہوئی تھیں، ان پر تعمیر کرنے والے کا نام کندہ تھا۔ جبکہ قبر کی پائنتی پر جو تختی تھی، اس پر حضرت طانوخؑ کی مدح سرائی میں اشعار درج تھے۔ مزار کے نیچے جو جگہ تھی، وہاں دیگر لوگوں کی قبریں موجود تھیںاور اس کے ساتھ نیچے مسجد، جس کے اوپر خانہ کعبہ اور روضہ رسول کے ماڈل رکھے گئے تھے۔ اس علاقے میں پانچ پیغمبروں کی قبور کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا۔ حضرت طانوخؑ کے مزار کے بعد ہم نے شیخ چوگانی میں ہی واقع ایک اور پیغمبر حضرت آمنونؑ کے مزار کی جانب جانے کا ارادہ کیا۔ یہ مزار بھی دریائے چناب کے کنارے پر واقع ہے۔ یہاں جوکچھ معلوم ہوا، حضرت طانوخؑ سے مختلف نہیں تو ان جیسا بھی نہ تھا۔ (جاری ہے)