محمد زبیر خان
حکومت کی عدم دلچسپی کے سبب دیامر بھاشا ڈیم کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم سست پڑ گئی ہے۔ ڈیم کیلئے مہم شروع ہونے کے بعد چار ارب روپے جمع ہوئے تھے۔ جبکہ پندرہ ستمبر سے لے کر پندرہ اکتوبر تک ایک ماہ کے دوران صرف ایک ارب روپے اکٹھے ہو سکے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونے سے ڈیم کی لاگت میں دو ارب ڈالر بڑھی ہے، جس کے بعد تعمیر کا تخمینہ بیس ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ڈیم کی تکمیل کیلئے کم از کم دس سال لگاتار کام کی ضرورت ہے، مگر ابھی تک باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔ جبکہ ڈیم کیلئے زمین سابقہ حکومت نے حاصل کی تھی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ روز (سوموار کی شام) تک ڈیم فنڈ میں پاکستانیوں نے پانچ ارب سات کروڑ اٹھاون لاکھ تہتّر ہزار پانچ سو چونسٹھ روپے جمع کروائے تھے۔ واضح رہے کہ ڈیم مہم شروع ہونے کے بعد پندرہ ستمبر تک کی محدود مدت کے اندر تقریباً چار ارب روپے جمع ہوچکے تھے۔ اس جبکہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پندرہ ستمبر سے لے کر پندرہ اکتوبر تک صرف ایک ارب روپے ہی جمع ہوئے ہیں۔ اس میں جرمانوں کی وہ رقوم بھی شامل ہیں، جو سپریم کورٹ کی جانب سے مختلف مدوں میں عائد کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے بھی ڈیم کیلئے چندہ مہم کا آغاز کیا تھا اور بعد ازاں اس کو مشترکہ چندہ مہم قرار دیا گیا تھا۔ مگر مہم میں حکومت کی عدم دلچسپی کی بنا پر ایک ماہ کے اندر صرف ایک ارب سے کچھ زائد رقم ہی جمع ہو سکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر حکومت اس میں دلچسپی لیتی اور باقاعدہ مہم چلائے رکھتی تو اس میں زیادہ رقم جمع ہو سکتی تھی۔ مگر سارے معاملے میں حکومت نے عدم توجہی کا مظاہرہ کیا۔ ذرائع کے مطابق جس طرح عدم دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم نے صرف پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ڈیم فنڈ مہم کا اعلان کیا تھا۔
دیامر بھاشا ڈیم کے قیام کا منصوبہ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں پیش کیا گیا تھا، جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان میں بھاشا کے مقام پر تعمیر ہونا ہے۔ ابتدا میں اس کا تخمینہ 12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے اور گزشتہ دنوں روپیہ جس تیزی سے نیچے آیا، اسے دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیم کی تعمیراتی لاگت تقریباً 22 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے بقول پیٹرول، گیس اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافے سے ڈیم کی لاگت میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ مہنگائی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں حد درجہ اضافہ اور ڈالر کی قیمت بڑھانے جیسی ’’اصلاحات‘‘ کے بعد عالمی مالیاتی ادارے نے بیل آئوٹ پیکج پر بات چیت شروع کی ہے۔ بیل آئوٹ پیکج کے بعد آئی ایم ایف کی اصلاحات کے نام پر مزید مہنگائی کا طوفان آئے گا اور اس سے بھی ڈیم کی لاگت میں خاصا اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ بائیس ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے تو آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکج کے نتیجے میں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوگا اور ڈیم کی تعیمر کا تخمینہ بھی مزید بڑھے گا۔ یہ اضافہ حالیہ اضافے سے دو گنا ہو سکتا ہے۔ اس طرح جتنا وقت گزرتا جائے گا، اتنا ہی ڈیم کی تعمیر میں مسائل اور لاگت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
خیال رہے کہ پرویز مشرف کے دور میں ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوئی تھی، جبکہ نواز شریف کے دور میں ڈیم کے لئے زمین حاصل کی گئی تھی۔ اس کے بعد اب تک ڈیم کے کام کو آگے بڑھانے کا کوئی بھی منصوبہ زیر غور نہیں آیا اور نہ ہی کسی منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر ڈیم پر لگاتار کام کیا جائے تو ڈیم کی تعمیر کے لئے دس سال درکار ہوں گے۔
مختلف ملکی اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ اور پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذرائع ہیں۔ جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ یو این ڈی پی سمیت دیگر اداروں کی اسی سال آنے والی مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 2040ء تک خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے۔ ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے۔ لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پانی کے ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے، اسے بچانے کے لیے منگلا ڈیم کے حجم جتنے تین اور ڈیموں کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ پانی کے ضائع ہونے کی چند بڑی وجوہات میں موسمی حالات کی تبدیلی، بارشوں کی کمی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی بچانے کے انتہائی ناقص ذرائع ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں پانی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے بھی بڑی تعداد میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔ پاکستان میں 15 میٹر سے زیادہ بلند ڈیموں کی تعداد 150 ہے، جس میں تربیلا اور منگلا سب سے پرانے ہیں، جو بالترتیب 1974ء اور 1967ء میں مکمل ہوئے۔ سب سے بڑا ڈیم تربیلہ ہے، جس پر پاکستان اپنے پانی کے لئے بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ تربیلہ میں اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش چالیس فیصد کم ہو چکی ہے ۔ ہائیڈرو گرافک سروے کے مطابق ڈیم میں مٹی اور ریت بھر چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈیم میں سے ریت اور مٹی نکالنا خطرناک اور مہنگا عمل ہے۔ مٹی ریت نکالنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ دریائے سندھ پر مزید ڈیم تعمیر کئے جائیں۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے تربیلہ ڈیم کی زندگی میں بھی اضافہ ہوگا۔
Next Post