نمائندہ امت
معروف تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کی ملکی سیاست، معیشت، خارجہ و داخلی امور پر گہری نظر ہے۔ پالیسی ساز اداروں سے قربت کے سبب کافی معاملات کی معلومات بھی رکھتے ہیں۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے آصف ہارون راجہ کے ساتھ تفصیلی بات چیت سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: پی ٹی آئی مخالف عناصر اس قسم کی افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ ملک کے پالیسی ساز حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے؟
ج: دراصل اکانومی سے ہی ریاست اور اس کے ادارے چلتے ہیں۔ اب تک معاشی بحران کو ہینڈل کرنے میں حکومت نے جو نااہلی دکھائی ہے، اس پر پالیسی ساز ادارے حکومت سے خوش نہیں۔ صرف ایک یہ وجہ ہی نہیں، بلکہ دیگر معاملات میں بھی اب تک حکومت کی جو کارکردگی رہی ہے، اس پر بھی عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ نئے پاکستان کا اعلان کرنے والی پی ٹی آئی حکومت پرانے پاکستان والے اقدامات کیوں اٹھا رہی ہے ؟ اس پر اصل ناراضگی ہے۔ حکومت بنانے کے لئے پرانے پاکستان کے اتحادیوں اور آزاد ارکان کو ساتھ ملانا مجبوری تھی۔ کیونکہ نمبر پورے نہیں ہو رہے تھے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ تاہم کئی اقدامات ایسے ہیں، جن سے موجودہ حکومت بچ سکتی تھی۔ مثلاً نعرہ لگایا گیا تھا کہ پنجاب پولیس کو غیر سیاسی بنانا ہے۔ اس کے برعکس الٹا پنجاب پولیس کو مزید سیاسی بنایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے اور آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنے سمیت تین واقعات ہو چکے ہیں۔ پنجاب پولیس کے معاملات درست کرنے کے لئے حکومت خود ناصر درانی کو لائی تھی، انہیں بھی فارغ ہونا پڑا۔ مخصوص نشستوں پر خاندان یا قریبی لوگوں کی خواتین کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ یعنی اسی اقربا پروری کا مظاہرہ کیا، جو پرانے پاکستان میں جاری تھا۔ انیل مسرت کو لے آئے۔ مشرف کے دور میں جو کردار طارق عظیم کا تھا، وہ اسے دے دیا گیا تو پھر فرق کیا رہ گیا؟ پی ٹی آئی حکومت کے سارے پلان کا دارومدار دو چیزوں پر تھا۔ اول یہ کہ لوٹے گئے 300 ارب ڈالر بیرون ملک سے لے آئیں گے۔ لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ دوئم یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ عمران خان کی ایسی کرشماتی شخصیت ہے کہ ان کے اقتدار میں آتے ہی اوورسیز پاکستانی دولت کے انبار لگا دیں گے۔ اس فرنٹ پر بھی ابھی تک کوئی ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی۔ بیرون ملک سے جو سرمایہ کاری آ رہی تھی، وہ منجمد ہو گئی ہے۔ سی پیک پروجیکٹ پر شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر حکومت نے جھوٹ در جھوٹ بولا کہ سعودی عرب نے اتنے پیسے دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ لیکن سعودی عرب نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیر کی گئی۔ جس سے غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوئی۔ ڈالر کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ اسٹاک مارکیٹ کرش ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو ایک ماہ پہلے چلے جانا چاہئے تھا۔ دوسری جانب خارجہ امور کے حوالے سے بھی حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ٹرمپ سے وزیر خارجہ نے صرف ہاتھ ملایا۔ اپنے امریکی ہم منصب پومپیو سے ملاقات کی، لیکن تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ اسی طرح دیگر دو بیرونی فرنٹس، افغانستان اور بھارت سے تعلقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بلکہ بیک فائر ہو گیا۔ حکومت کی اس مجموعی ناقص کارکردگی پر ہی پالیسی سازوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔
س: اسد عمر کو تو وزیر خزانہ کے طور پر سب سے موزوں شخصیت قرار دیا جا رہا تھا۔ اور یہ تاثر عام تھا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت کو بہتر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر ایسا کیا ہوا؟
ج: اسد عمر کی اکنامک میں کیا کوالیفیکیشن ہے۔ اسحاق ڈار سے اسد عمر کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ڈار نے معیشت میں کئی بین الاقوامی ڈگریاں اور ایوارڈ لے رکھے ہیں۔ اکنامک ورلڈ میں ان کا ایک نام ہے۔ اس کے برعکس وزیر خزانہ اسد عمر کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ یہ تاثر پھیلا رہے تھے کہ اسد عمر کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان آتے ہی معاشی معاملات جادوئی طور پر درست ہو جائیں گے، وہ سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ وزیر خزانہ اب خود کہہ رہے ہیں کہ اسحاق ڈار کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ درست تھا۔ نون لیگ کی حکومت نے گری ہوئی معیشت کو ایک برس کے اندر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ 28 جولائی 2017ء تک کے معاشی اعداد و شمار حیران کن تھے۔ جی ڈی پی ریٹ 5.8 سے 6 فیصد کو کراس کرنے جا رہا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان کا جی ڈی پی ریٹ 6 فیصد ہونے جا رہا ہے۔ تاہم پاناما کیس کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ملکی معیشت کو ریورس گیئر لگ گیا۔
س: آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے میں مزید اور کتنا وقت درکار ہے؟
ج: کم از کم تین ماہ اور لگیں گے۔ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمی ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کو اصل مسئلہ Circular Debt (گردشی قرضے) کا ہے۔ جب یہ گردشی قرضے ادا نہیں کئے جائیں گے تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ دوبارہ پندرہ پندرہ بیس گھنٹوں پر آ جائے گی اور سارا نظام بیٹھ جائے گا۔ دوسری جانب امریکہ بھی علی الاعلان آئی ایم ایف کے قرضے میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ ٹرمپ جب سعودی عرب جیسے اپنے اتحادی کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔ چین کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ روس، ترکی اور ایران کا لحاظ نہیں کر رہا تو پاکستان کا خیال کیوں کرے گا۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے کی فراہمی کے لئے امریکہ اپنی کڑی شرائط منوانا چاہتا ہے۔
س: ممکنہ امریکی شرائط کیا ہو سکتی ہیں؟
ج: ٹیکس بڑھانے، بجلی گیس سمیت مختلف اشیا کی قیمتوں میں اضافے جیسی معاشی شرائط تو آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر موجود ہیں۔ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے اپنے دیگر مقاصد بھی پورا کرنا چاہتا ہے۔ سی پیک کو تو وہ پہلے ہی درمیان میں لے آیا ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف کو ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے علاوہ غیر ملکی این جی اوز کے خلاف جاری کارروائی رکوانا بھی امریکی ایجنڈے میں شامل ہے۔ غیر ملکی این جی اوز کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔ حکومت نے اس وقت ایک ہی اچھا کام کیا ہے کہ وہ ملک دشمن غیر ملکی این جی اوز پر ہاتھ ڈال رہی ہے۔ یہ کام 2015 ء میں نون لیگ کی حکومت نے شروع کیا تھا۔ اب اس میں تیزی لائی گئی ہے۔ پچھلے 20 برس سے یہ غیر ملکی این جی اوز ریاست مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان پر ان کی منظم یلغار شروع ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ان غیر ملکی این جی اوز کا نیٹ ورک پاکستان میں مزید مضبوط ہوا۔ 7.5 ارب ڈالر کا کیری لوگر بل دراصل ان این جی اوز کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کو دیا گیا تھا۔ اس بل کے تحت آنے والا سارا پیسہ ان این جی اوز کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔ فاٹا، خیبر پختون، بلوچستان اور کراچی سمیت جتنے بیٹل زون تھے، وہاں یہ این جی اوز بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کا کام ریاست مخالف عناصر اور دہشت گردوں کی فنڈنگ اور ان کو مختلف ٹاسک دینا تھا۔ ان این جی اوز نے ساتھ میں نام نہاد انسانی حقوق تنظیموں کو ملا رکھا تھا۔ وہ میڈیا کے ایک حصے کو بھی استعمال کر رہی تھیں۔ پرائیویٹ اسکولوں میں بھی اپنا نیٹ ورک بنا لیا۔ جہاں نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ جب بھی پاکستان نے ان این جی اوز کے خلاف کارروائی شروع کی، مغربی طاقتوں نے دبائو ڈال کر رکوا دی۔ اب موجودہ حکومت نے ایسی 18 این جی اوز کو بوریا بستر گول کرنے کے احکامات دے دیئے ہیں۔ جبکہ مزید کو بھی ایسی ہی ہدایت دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس پر بڑا شور مچایا جا رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی ایک وجہ ان این جی اوز کے خلاف کارروائی کو رکوانا بھی ہے۔ اس حوالے سے یورپی یونین کا دبائو بھی آ رہا ہے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے دینے کی شرائط میں ان این جی اوز کے خلاف کارروائی رکوانے کی شق بھی شامل کرا دی جائے۔ ایک اور خوا مخواہ کی شرط یہ بھی ہے کہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن قائم کر کے دے۔ چاہے یہ امن طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے آئے یا پھر ان کے خلاف کارروائی کے ذریعے لایا جائے۔ امریکہ یہ دبائو پہلے ہی ڈال رہا تھا۔ اب آئی ایم ایف کو ٹول بنا کر یہ پریشر ڈالنا چاہتا ہے۔
س: حکومت کی جانب سے پچاس لاکھ مکانوں کے پروجیکٹ کو کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہ عوام کے لئے ایک بہتر قدم نہیں؟
ج: دراصل پلان کے بغیر اعلان کرنا حکومت کا اصل مسئلہ ہے۔ پچاس لاکھ مکانوں کے پروجیکٹ کے حوالے سے بھی یہی کچھ کیا گیا ہے۔ کمزور معیشت کو بحال کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کے بجائے غیر حقیقت پسندانہ ہائوسنگ پروجیکٹ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس وقت پورے پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی کل پختہ مکانوں کی تعداد 50 لاکھ نہیں۔ ان مکانوں کی تعداد 40 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے۔ جو پچھلے 71 برس میں تعمیر کئے جا سکے اور یہ صرف 5 برس میں اتنی بڑی ہائوسنگ اسکیم بنانے چلے ہیں۔ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ ابھی سے حکومت نے گیس اور بجلی مہنگی کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پچاس لاکھ گھروں کو گیس اور بجلی کون دے گا۔ جبکہ موجودہ پونے پچاس لاکھ گھروں کے لئے بھی بجلی اور گیس پوری طرح دستیاب نہیں۔ پھر یہ کہ اس پروجیکٹ پر 180 ارب ڈالر لگیں گے۔ جبکہ اتنا پیسہ تو ملک کے سسٹم میں موجود ہی نہیں۔ آشیانہ اسکیم پر تو حکومت چیخیں مار رہی ہے۔ یہ پروجیکٹ تو آشیانہ اسکیم کا باپ ہے۔ اس رقم سے 12 بھاشا ڈیم بن سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا ڈے ٹو ڈے بنیاد پر پلان بنانے سے ساری خرابی پیدا ہو رہی ہے۔ جبکہ کسی بھی فرنٹ پر بریک تھرو نہیں ہو رہا۔ یہ تمام عوامل پالیسی سازوں کے لئے اطمینان بخش نہیں۔ حکومت کی پے در پے ناکامیوں کے نتیجے میں جو ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑا گیا تھا، اس ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی حامی سمجھنے جانے والی سیاسی قوتوں نے دوبارہ ابھرنا شروع کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی ضمنی الیکشن میں کامیابی اس کی تازہ مثال ہے۔ ایک مرتبہ اگر اپوزیشن پارٹیاں گینگ اپ کر گئیں تو پھر ان کو کون سنبھالے گا؟ اصل سوال یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت بھی فیل ہو گئی تو پھر آئندہ کیا ہو گا؟ اس وقت آپ کے پاس کوئی قومی سیاسی پارٹی موجود نہیں۔ نون لیگ کی تو جان نکال دی گئی ہے۔
س: مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی ضمنی الیکشن میں کامیابی کس بات کا اشارہ ہے۔ نواز شریف نے یہ معنی خیز بیان بھی دیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج ایک پیغام ہے کہ آنے والا وقت کس طرح کا آ رہا ہے؟
ج: اپوزیشن نے 25 جولائی کے عام انتخابات میں دھاندلی کے جو الزام لگائے اس کی انکوائری ابھی ہونی ہے۔ یہ انکوائری حکومت یا اس کے خیر خواہوں نے نہیں، بلکہ تمام پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندوں نے کرنی ہے۔ اس میں پتہ نہیں کیا کیا نکلنا ہے۔ لہٰذا اس طرح کا رسک ضمنی الیکشن میں دوبارہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس بار ایکا کر لیا تھا۔ اور اپنا مانیٹرنگ سسٹم بنا لیا تھا کہ کسی قسم کی ہیرا پھیری نہیں ہونے دینی۔ ایک طرف یہ معاملہ بھی تھا۔ پھر اس سے عوامی مقبولیت کا دعویٰ کرنے والی پی ٹی آئی حکومت کی صلاحیت کا بھی اندازہ ہو گیا۔ ابھی تو پی ٹی آئی حکومت کا آغاز ہے، لہٰذا اس کی مقبولیت عروج پر ہونی چاہئے تھی۔ کتنی بھی کمزور حکومت ہو اس کی مقبولیت کا گراف کم از کم ایک برس بعد گرنا شروع ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عمران خان کی حکومت ٹرمپ انتظامیہ کی طرح پہلے دن سے ہی لیٹ ڈائون ہونا شروع ہو گئی۔ اس ساری صورت حال میں پالیسی سازوں کو پریشانی تو ہونی ہے۔
س: حکومت نے کم از کم احتساب کا سلسلہ تو شروع کیا؟
ج: یہ بھی المیہ ہے کہ حکومت کی ساری چیزیں Selected ہیں۔ احتساب بھی Selected ہے۔ اس سے بھی غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ احتساب کے حوالے سے سندھ میں تاحال کوئی کام نہیں کیا گیا۔ صرف باتیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستانی معیشت کا مرکز کراچی ہے۔ لیکن احتساب کے سلسلے میں حکومت نے سارا فوکس پنجاب پر رکھا ہوا ہے۔ پنجاب میں بھی ضرور احتسابی کارروائیاں کریں۔ لیکن کم سے کم لوگوں کو دکھانے کی حد تک کہ حکومت بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے۔ کرپشن کے گڑھ بلوچستان اور سندھ، خیبر پختون خواہ کی طرف بھی جانا چاہئے۔ خود حکومت نے ایسے وزیر مشیر بٹھا رکھے ہیں جن کے خلاف نیب کی تحقیقات چل رہی ہیں۔ ریفرنس دائر ہونے پر بابر اعوان نے اپنی پوسٹ سے استعفیٰ تو دے دیا۔ سوال یہ ہے کہ انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ نندی پور پروجیکٹ 2010 ء میں شروع ہوا تھا۔ اس وقت سے بابر اعوان پر کیس ہے۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ بابر اعوان کی وجہ سے نندی پور پروجیکٹ کی ساری مشینری کو زنگ لگ گیا۔ کیونکہ بابر اعوان کی وزارت قانون اس کی منظوری نہیں دے رہی تھی۔ بابر اعوان پھر بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ جبکہ ملک میں اس وقت جو سب سے بہتر ایڈمنسٹریٹر شہباز شریف کی شکل میں موجود تھا، اسے اندر ڈال دیا گیا۔ ایڈمنسٹریشن میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو واحد شہباز شریف ہیں، جنہوں نے گرائونڈ پر رزلٹ دکھائے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
Prev Post