عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں نے کہا۔ ’’معاف کرنا سردار جی، یہ تو ہماری قوم کے ساتھ زیادتی ہے‘‘۔
براہم دیپ نے مایوسی سے گردن ہلائی۔ ’’مجھے پتا تھا کہ تم بشن دیپ کی باتوں سے قائل ہوجاؤ گے۔ مجھے تو یقین ہوتا جا رہا ہے کہ رفتہ رفتہ ساری نئی پیڑھی خالصتان کے قیام کے مطالبے پر متفق ہوجائے گی۔ بلکہ مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں باقاعدہ خون خرابہ نہ ہوجائے۔ جس طرح ملک کے بٹوارے کے وقت ہوا تھا۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمہ دار پنڈت نہرو ہوں گے۔ ان کے ایک بیان نے تو ہمارے جوانوں میں آگ بھڑکادی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’کون سا بیان سردار جی؟‘‘۔
انہوں نے پژمردہ لہجے میں کہا۔ ’’انہوں نے پنجاب میں زبان کی بنیاد پر خود مختار ریاست کا مطالبہ یاد دلانے پر کہا تھا کہ میں ملک میں خانہ جنگی برداشت کر سکتا ہوں، لیکن پنجابی ریاست نہیں۔ پنجابی بولنے والوں کے لیے ریاست بنانے کا مطلب سکھ قوم کو پھلنے پھولنے کا موقع دینا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’سردار جی، اس کے باوجود آپ بشن دیپ بھائی کے موقف کو غلط سمجھتے ہیں‘‘۔
میری بات کا جواب دینے کے بجائے براہم دیپ سنگھ خاموش ہوگئے۔ میں بھی گفتگو ختم کر کے اخبار کی بچی کھچی خبریں کھنگالنے لگا۔ پوری رات اور نصف دن کا سفر کر کے پنجاب میل اب وسطی ہندوستان سے گزر رہی تھی۔ میرے پوچھنے پر براہم دیپ سنگھ جی نے بتایا کہ اب جھانسی ریلوے اسٹیشن پر ٹرین خاصی دیر رکے گی۔ لہٰذا کھانا لانے کے لیے وہ مناسب جگہ ہے۔ اسٹیشن قریب آنے پر انہوں نے بشن دیپ کو اٹھا دیا تھا۔ اتنے طویل سفر کے دوران مجھے بیزاری محسوس ہونے لگی تھی۔ چنانچہ میں دل بہلانے کے لیے بچوں سے گپ شپ کرتا رہا اور ان کے ساتھ اوٹ پٹانگ کھیل کھیلتا رہا۔ رات ہوئی اور پھر دلّی اور روہتک وغیرہ کو پیچھے چھوڑ کر نصف رات کے بعد لگ بھگ دو بجے ٹرین جکھال نامی ریلوے اسٹیشن پر چند منٹ کے لیے ٹھہری۔ اسٹیشن کے نام پر نظر پڑتے ہی بشن دیپ اور اس کی بیوی نے نیند میں ڈوبے بچوں کو جھنجوڑکر جگانا شروع کر دیا اور سامان سمیٹنے لگی۔
بشن دیپ نے مجھے مخاطب کر کے کہا۔ ’’یہاں سے بڈھالڈا ریلوے اسٹیشن بیس میل کے قریب فاصلے پر ہے۔ ریل اچھی رفتار سے چل رہی ہے۔ لگتا ہے آدھے گھنٹے کے اندر اتار دے گی ہمیں‘‘۔
بشن دیپ کا اندازہ درست نکلا۔ پندرہ منٹ بعد ٹرین بریتا ریلوے اسٹیشن پر دو منٹ کے لیے رکی اور پھر مزید پندرہ منٹ ہم بڈھالڈا ریلوے اسٹیشن کے چھوٹے سے پلیٹ فارم پر افرا تفری کے عالم میں اتر رہے تھے۔ کیونکہ وہاں بھی ٹرین کا دو منٹ ہی کا اسٹاپ تھا۔ اگر سردار امر دیپ اپنے دو ملازموں کے ساتھ پہلے سے مدد کے لیے تیار نہ ہوتا تو اتنے بڑے ٹبّر کا مع ساز و سامان ٹرین سے اترنا لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔
ہمارے پلیٹ فارم پر اترنے کے فوراً بعد پنجاب میل، پنجاب کی باقی منزلیں طے کرنے کے لیے چل پڑی۔ اپنی ماں سے دیرتک لپٹے رہنے کے بعد امر دیپ پہلے اپنے باپ اور بھائی سے گلے ملا اور پھر میری طرف متوجہ ہوا۔ مجھے متعارف کرانے کی ذمہ داری سردار براہم دیپ نے اپنے ذمہ لے لی۔ ’’ یہ تیغ بہادر سنگھ ہے۔ بڑا اچھا لڑکا ہے۔ لندن سے سیر کے لیے پہلی بار ہندوستان آیا ہے۔ ہم اسے اپنا پنجاب دکھانے کے لیے ساتھ لے آئے ہیں‘‘۔
یہ سن کر امر دیپ نے نہایت گرم جوشی سے معانقہ اور مصافحہ کیا۔ ’’بہت خوشی ہوئی جوان۔ اپنا پنجاب دیکھے گا تو دل خوش ہوجائے گا‘‘۔
بشن دیپ نے اپنے باپ کے ساتھ یک زبان ہوکر بتایا کہ انہوں نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے۔ سارا خاندان کسی نہ کسی طرح سامان سمیت دونوں جیپوں میں سما گیا۔ جیپوں کی ڈرائیونگ سیٹ دونوں بھائیوں نے سنبھال لی اور ملازم ایک موٹر سائیکل پر وہاں سے چل دیئے۔ میں نے یہ بات خاصی دلچسپی سے دیکھی کہ تمام بچے امر دیپ کی جیپ میں سوار ہوئے ہیں۔ لہٰذا میں نے بھی اسی جیپ کو چُنا۔ چند ہی منٹوں میں دونوں جیپیں ایک تنگ سڑک پر آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔
چاروں بچے اپنے تاؤ جی سے اتنے بے تکلفانہ گپ شپ کر رہے تھے کہ مجھے امر دیپ سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں مل پا رہا تھا۔ وہی درمیان میں موقع نکال کر میری طرف اکا دکا سوال اچھالتا رہا اور میں پہلے سے چلنے والی کہانی کے مطابق جواب دیتا رہا۔ لیکن پھر بچوں نے مل کر تاؤ جی سے فرمائش کر دی کہ انہیں فلم شری 420 کا گانا ’’ایچک دانا بیچک دانا‘‘ سنا یا جائے۔
امر دیپ نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی، لیکن وہ کب ماننے والے تھے۔ چنانچہ مجبوراً امر دیپ کو اپنی کھنک دار آواز میں مقبول گیت سنانا پڑا۔ وہ شاید سر اور لے کی بھی سمجھ رکھتا تھا۔ لہٰذا اس کا گانا سماعت پر بوجھ نہ بنتا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بچے بھی اس کے ساتھ ساتھ گارہے تھے۔ لہٰذا امر دیپ کی خوش گلوئی دب کر رہ گئی۔ گیت ختم ہوتے ہی بچوں نے نئی فرمائش کا الاپ شروع کر دیا۔ اب امر دیپ کو اسی فلم کا گیت ’’میرا جوتا ہے جاپانی‘‘ سنانا تھا۔ لیکن اس سے پہلے میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس بار بچہ لوگ گانے کی ایسی تیسی نہیں کریں گے۔ میں نے شاید امر دیپ کے دل کی بات کہہ دی تھی۔ چنانچہ اس نے نہایت عمدگی سے گانا نبھایا۔
ریلوے اسٹیشن سے سرداروں کے ڈیرے تک کا سفر خاصا طویل تھا۔ لیکن اسی طرح کی ہڑ بونگ میں وقت گزرنے کا پتا نہیں چلا اور اضافی سفر کی تھکن بھی محسوس نہیں ہوئی۔ ہم ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب سے گزرے تو امر دیپ نے بتایا کہ یہی چھاجلی گاؤں ہے۔ نیم پختہ سڑک پر لگ بھگ ایک میل فاصلہ طے کرنے کے بعد مجھے چاندنی میں سامنے سڑک کنارے ایک بڑی سی سفید عمارت نظر آئی۔
امر دیپ نے میرا تجسس محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ہمارا گردوارہ ہے جی۔ میرے دادا جی نے بنوایا تھا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے جیپ دائیں طرف جانے والی ایک تنگ سی سڑک پر موڑ لی۔ کوئی ایک فرلانگ کا فاصلہ طے کرکے ہم درجنوں درختوں میں گھری ایک بہت بڑی حویلی کے احاطے میں داخل ہوئے۔ بشن دیپ پہلے ہی مرکزی دروازے کے سامنے اپنی جیپ روک چکا تھا۔ امر دیپ نے بھی اس کے پیچھے ہی جیپ ٹھہرادی۔ بچے یکے بعد دیگرے شور مچاتے ہوئے گاڑی سے اترے اور حویلی میں داخل ہوگئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭