سجاد عباسی
آج سینٹ پیٹرز برگ میں ہمارے قیام کا آخری دن تھا۔ رات گئے دریائے نیوا سے واپسی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے علی الصبح کہیں جا کر نیند سے ہم آغوش ہونے کا موقع ملا۔ اب تک دونوں شہروں یعنی ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ میں ہم نے جن کوسٹرز یا بسوں میں سفر کیا تھا، ان کے ڈرائیور روسی ہی تھے۔ جن سے ہم کلام ہونا تو دور کی بات، ان کی آواز سننے کا بھی موقع نہیں ملا، کیونکہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ کبھی کبھار جب گاڑی کھڑی ہوتی تو یہ ڈرائیور فون پر بات کرتے ہوئے نظر آ جاتے۔ البتہ رات کو دریا سے واپسی پر لینے کیلئے آنے والا ڈرائیور پاکستانی تھا۔ چونکہ روس میں پاکستان شہری تعداد میں بہت کم ہیں، لہٰذا فطری طور پر اپنے ہم وطنوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ مگر دوسری طرف ان پاکستانیوں کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہیں ہوتا، جن کے ہاتھ اپنے ہم وطن لگ جاتے ہیں اور وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ یہی معاملہ ہمارے پاکستانی ڈرائیور کا تھا، جو ایک طرف گاڑی چلاتے ہوئے پُر جوش انداز میں روس میں سکونت کے تجربات شیئر کئے جا رہا تھا تو دوسری جانب بار بار موبائل فون پر آنے والی کالز بھی ریسیو کر رہا تھا۔ اس دوران ایک آدھ بار گاڑی دائیں بائیں لہراتے ہوئے بال بال بچی۔ صد شکر کہ رات کو سڑکیں خالی ہونے کی وجہ سے سب خیر رہی۔ مگر جوان کا بھلا ہو کہ اس کی ان حرکتوں سے ہم تھوڑی دیر کیلئے بھول گئے کہ ہم ماسکو کی سڑکوں پر کسی قسم کے قانون کی پابندی کی زد میں ہیں۔ کچھ ایسی ہی فنی مہارت کا مظاہرہ اگلی شام کو آصف صدیقی نے بھی کیا، جن کی گاڑی میں ہم دو تین لوگوں کو شہر گھومنے کا موقع ملا۔ ان کی کار کا اگلا حصہ چند روز پہلے ہی کسی آذر بائیجانی نے نشے کی حالت میں گاڑی ٹھوک کر تباہ کر دیا تھا۔ تاہم ابھی انہیں گاڑی کی مرمت کرانے کا موقع نہیں ملا تھا اور ’’چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے‘‘ فارمولے کے تحت وہ سپر سانک کی رفتار سے چلائے جا رہے تھے۔ آصف صدیقی کا کہنا تھا کہ سینٹ پیٹرز برگ کو اچھی طرح دیکھنے کیلئے یوں تو کئی برس درکار ہیں کہ اس کی دلکشی سے نگاہیں سیر ہی نہیں ہوتیں، مگر کم سے کم بھی ہفتہ دس دن تو اس شہر کیلئے وقف کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہاں اتنی بڑی تعداد میں تاریخی اور تفریحی مقامات ہیں کہ دو تین دن قطعی نا کافی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سینٹ پیٹرز برگ آنے کیلئے آئیڈیل وقت جون جولائی کے دو مہینے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا۔ یعنی دن اس قدر طویل ہوتے ہیں کہ ایک آدھ گھنٹے کیلئے کچھ ملگجا سا اندھیرا ہوتا ہے اور پھر دن شروع ۔ یہی وہ وقت ہے جب یہاں سیاحوں کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ ’’جب رات ہی نہیں ہوتی تو پھر سونے کا شیڈول کیا ہوتا ہے اور نیند کیسے آتی ہے؟‘‘۔ ہمارے سوال پر وہ مسکرائے اور بولے۔ ’’شروع شروع میں تو واقعی بڑی مشکل پیش آتی تھی، مگر اب گھر کے پردے وغیرہ گرا کے مصنوعی اندھیرا کرکے کام چلا لیتے ہیں اور پھر دن بھر کی مصروفیت کے بعد نیند آ ہی جاتی ہے‘‘۔ آصف صدیقی نے اس شام وفد کے اعزاز میں یاسمین ریسٹورنٹ پر عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا، جو سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کا ہے۔ ہوٹل پر تقریباً تمام پاکستانی ڈشیں دستیاب ہیں، جبکہ ملازمین میں روسی اور پاکستانی دونوں شامل ہیں۔ ہمیں کھانا سرو کرنے والی روسی لڑکی نتاشا اچھی خاصی اردو بول لیتی ہے۔ اس کے منہ سے تڑکے والی دال، بھنڈی گوشت اور مٹن کڑائی وغیرہ سن کر لطف آیا۔ کھانے کا ذائقہ تو اپنی جگہ لا جواب تھا ہی۔ یاسمین ریسٹورنٹ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے دروازے اور فرنیچر بھی چنیوٹی لکڑی کے بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ پاکستانی دیار غیر میں روزگار کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کے فروغ کا کام بھی کر رہے ہیں۔ یہاں کھانے کے دوران اور اس کے بعد گپ شپ چلتی رہی، مگر خواہش کے باوجود زیادہ دیر بیٹھنے کا موقع نہ تھا کہ رات ساڑھے گیارہ بجے ہمیں ماسکو کیلئے ٹرین پکڑنا تھی۔ لہٰذا پاکستانی بھائیوں سے بغلگیر ہو کر ہم یاسمین ریسٹورنٹ سے اورینٹ ٹرین کے اسٹیشن روانہ ہو گئے۔ سامان پہلے سے گاڑی میں موجود تھا، کیونکہ وقت کی قلت کے باعث ہوٹل سے چیک آئوٹ کر کے ہم سیدھے ریسٹورنٹ پہنچے تھے۔ اسٹیشن پہنچ کر ہم نے رات کی روشنی میں سینٹ پیٹرز برگ پر الوداعی نگاہ ڈالی۔ دمِ رخصت ہم نے اس شہر بے مثال کو ایک بار پھر دیکھا جس کے در و دیوار ہر ملک کے سیاحوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔ سینٹ پیٹرز برگ جو ایک ادھ کھلی کلی کی مانند ہے۔ جس کا بھید کسی پر پوری طرح نہیں کھلتا اور وہ تشنگی کے احساس کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔ سینٹ پیٹرز برگ جو اپنے سینے میں تاریخ کے ان گنت رازوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ جن میں دہشت کے الائو بھی ہیں اور شبنمی یادوں کی نرماہٹ بھی۔ وہ شہر جس کی فضائوں میں روسی شیکسپیئر الیگزینڈر پشکین اور ادب کے دیوتا دوستو وسکی کی خوشبو رچی بسی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ راسپوتین جیسے مکّاراور ایک دنیا کیلئے قابل نفرت کردار بھی اس کی گود میں پلتے رہے ہیں۔ وہ شہر جس نے دنیا کے کسی بھی خطے سے زیادہ نامور ادیب اور شاعر پیدا کئے۔ ہمارے خیالات کی رو ٹرین کی حتمی سیٹی کے ساتھ ٹوٹی جو روانگی کے وقت بجتی ہے۔ سینٹ پیٹرز برگ کا سحر ہی ایسا تھا کہ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی کب خودکار انداز میں سامان رکھا اور کب نشستوں پر بھی آ کر بیٹھ گئے۔ یہ اورینٹ ٹرین تھی، جو ہمیں کچھ اپنی اپنی سی لگی۔ کیونکہ اس کی نشستیں اور بوگی بعض پاکستانی ٹرینوں جیسی ہی تھی۔ گزشتہ چند برسوں سے ہمیں جب بھی فیملی کے ساتھ اندرون ملک سفر درپیش ہوتا ہے تو ہم ٹرین ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ گزرے دو چار برسوں کے دوران ٹرینوں کی اپ گریڈیشن اور وقت کی پابندی کے باعث ریلوے کے سفر میں بہت بہتری آئی ہے، جس کا کریڈٹ بڑی حد تک سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو جاتا ہے۔ جب اپنے ہم سفر دوستوں کو بتایا کہ گزشتہ ماہ ہی ہم نے فیملی کے ساتھ لاہور سے راولپنڈی، اسلام آباد ایکسپریس نامی ٹرین میں سفر کیا، جس کی روانگی شام 6 بجے اور راولپنڈی آمد کا وقت 10 بج کر 20 منٹ تھا اور ٹھیک 10 بجکر 19 منٹ پر ٹرین پنڈی اسٹیشن پر موجود تھی تو یہ بات ان سب کیلئے ناقابل یقین تھی۔ خود ہمیں سفر کر کے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم لاہور سے راولپنڈی صرف 4 گھنٹے بیس منٹ میں پہنچ گئے۔ اورینٹ ٹرین کا سفر اگرچہ بلٹ ٹرین کے مقابلے میں تین گھنٹے زیادہ تھا، مگر اس کا پتہ اس لئے نہیں چلا کہ ایک آدھ گھنٹے بعد ہی نیند نے آ لیا۔ آنکھ کھلی تو صبح کے ساڑھے پانچ بج چکے تھے۔ چھ بجے ٹرین کو ماسکو پہنچنا تھا۔ ہم نے جلدی سے ٹوتھ برش اور شیونگ کا سامان نکالا کہ واش روم جاکر حلیہ درست کر لیں، مگر بوگی سے باہر تا حد نگاہ انسانی سر ہی نظر آ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پوری بوگی کے ساتھ ایک ہی ٹوائلٹ ہے اور بیشتر مسافروں کی آنکھ ہماری طرح ابھی ابھی کھلی ہے۔ کوئی تیس کے قریب سر گننے کے بعد کم از کم پانچ منٹ فی کس کے حساب سے شمار کیا تو ڈیڑھ سو منٹ بنتے تھے۔ یعنی کم از کم ڈھائی گھنٹے۔ جبکہ ماسکو پہنچنے میں صرف 25 منٹ باقی رہ گئے تھے۔ مطلب یہ کہ واش روم سے استفادے کیلئے ہمیں ایک بار پھر ٹرین کا ٹکٹ لینا پڑتا۔ سو ہم اپنے اراد ے سے باز آ گئے اور اسے اگلے مرحلے کیلئے ملتوی کر دیا۔ خوش قسمتی سے ماسکو پہنچ کر ڈاکٹر ژواگو ریسٹورنٹ میں ہمیں اس کا موقع مل گیا، کیونکہ اتنی صبح سویرے ناشتے کیلئے ہوٹل پہنچنے والا ہمارا وفد ہی تھا۔ لہٰذا صاف ستھرے اور کشادہ واش روم ہمیں خالی مل گئے۔ بارہ بجے ماسکو کے DOMODEDOVO ایئر پورٹ سے ہمیں ایک بار پھر دوحہ کیلئے قطر ایئر ویز کی پرواز پکڑنا تھی۔ لہٰذا ناشتے کے فوری بعد ایئر پورٹ کیلئے نکل گئے۔ پاکستانی قونصلر بلال وحید نے ریلوے اسٹیشن سے ہی ہمیں جوائن کرلیا تھا۔ جبکہ ان کے نائب اسرار محمود تو ہمارے ساتھ ہی تھے۔ کوئی 10 بجے ہم قطر ایئر ویز کے کائونٹر کے سامنے قطار میں لگے تھے۔ یہاں بے شمار سر کاری اور نجی ایئر لائنز کے کائونٹر موجو د تھے۔ ہماری نگاہیں پی آئی اے کے لوگو کی تلاش میں ادھر اُدھر گھوم رہی تھیں۔ دور کہیں سبز رنگ میں PIA کی ایک جھلک آ کر غائب ہو گئی، جو غالباً اتحاد ایئر ویز کے ساتھ بطور اشتہاری پٹی (SLIDE) چل رہی تھی۔ ظاہر ہے ماسکو کیلئے پی آئی اے کی پرواز نہیں تھی۔ ورنہ ہم قطر ایئر ویز سے کیوں جاتے۔ ہمارے استفسار پر بلال وحید کا کہنا تھا کہ جس طرح پاکستان اور روس ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، اس ماحول میں قومی ایئر لائن کی پرواز شروع کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ بشرطیکہ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کو روسی سیاحوں کیلئے ویزا فری کرنا چاہیے۔ جس کی فیس اس وقت کوئی 450 امریکی ڈالر ہے۔ جبکہ روس سے اگر کوئی شخص پاکستان آتا ہے تو اس کیلئے کسی ٹورسٹ کمپنی کی اسپانسر شپ ضروری ہے۔ اب ان کو تو کمائی کا بہانا چاہیے۔ سو وہ دو تین سو ڈالر کی الگ سے ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ اگر یہ رکاوٹیں دور ہو جائیں تو روسی سیاحوں کی آمدورفت شروع ہو جائے گی۔ دونوں ملکوں کو قریب لانے کیلئے مزید کیا اقدامات ہو سکتے ہیں؟ ہمارے سوال پر بلال وحید نے بتایا کہ ایک تو ہم نے پروازوں کی بات کی۔ دوسرے سیاحوں کی آمدورفت میں آسانی پیدا کی جائے۔ تیسرے پاکستان کے قومی بینک کی ایک شاخ ماسکو میں کھولنے کا معاہدہ بھی مفید ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ کچھ زیر التوا معاملات ایسے ہیں، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کیلئے اہم ہیں۔ ایک تو پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے روس کے کچھ واجبات کا معاملہ التوا میں ہے۔ دوسرے نارتھ سائوتھ گیس پائپ لائن منصوبہ پاک روس تعلقات میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر بوجوہ اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اس گفتگو کے دوران ہی ہمیں دوحہ کیلئے اذن سفر مل گیا، جہاں سے منسلکہ پرواز کے ذریعے پاکستان روانہ ہونا تھا۔ سو ہم نے میزبانوں سے معانقہ کیا اور ماسکو شہر کے دستیاب منظر پر الوداعی نظر ڈال کر چل پڑے۔
٭٭٭٭٭