ایس اے اعظمی
چینی حکومت اور سائنسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ چین دو برس بعد اپنا چاند بناکر چڑھائے گا، جس کے نتیجے میں اس کو کروڑوں ڈالرز کی بجلی کی بچت ہوگی۔ مصنوعی چاند کی روشنی سے زمین کو جگمگانے کیلئے سیارچے خلا میں بھیجے جائیں گے، جو زمین سے قریب ہوں گے۔ اصلی چاند کی طرح یہ بھی انسانی آنکھ سے بآسانی دیکھا جاسکے گا۔ تاہم ’’الومناتی سیٹلائٹ‘‘ کے ماحولیاتی نظام پر اثر انداز ہونے کا سوال بھی کھڑا ہوگیا۔ دوسری جانب نئی ٹیکنالوجی پر روس اور امریکہ کے ماہرین انگشت بدنداں رہ گئے ہیں۔
چین کا چاند چڑھنے کے بعد رات کے اندھیرے میں ریاست سی چیوان کے شہر چینگ ڈو کی سڑکوں پر لگی اسٹریٹس لائٹس کا خاتمہ ہوجائے گا اور سورج کی روشنی کو منعکس کرنے والے مصنوعی سیارچوں کی مدد سے چینی سائنسدان اس روشنی کو زمین پر بھیجیں گے اور شہر رات میں بھی روز روشن کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا، جبکہ چینگ ڈو شہر میں کروڑوں ڈالرز سالانہ کی بجلی بچائی جاسکے گی۔ روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ روسی خلائی سائنسی ماہرین 1999 میں یہی تجربہ کرچکے ہیں، ان کی کوشش تھی کہ زمین کے مدار میں موجود بڑے آئینوں کی مدد سے سورج کی روشنی کو منعکس کرکے زمین کے مخصوص حصوں پر ڈالی جائے لیکن روسی سائنس دانوں کا یہ تجربہ ناکامی کا شکار رہا اور دس سال کے اندر اندر روس نے یہ پروجیکٹ بند کردیا۔ اب چینی سائنس دانوں نے مصنوعی چاند یا سیارچوں کی مدد سے سورج کی روشنی کو منعکس کرکے شہروں کو رات میں روشن کرنے کا تجربہ کرلیا ہے، جس کی وجہ سے روسی اور امریکی ماہرین حیران ہیں کہ یہ کون سی نئی ٹیکنالوجی ہے۔ چینی جریدے چائنا ڈیلی نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ منعکس شدہ سورج کی روشنی چاند کی روشنی سے آٹھ گنا زیادہ ہوگی یعنی یہ چاند شہر کے مخصوص حصوں کو اس قدر روشن رکھے گا کہ رات میں بھی اندھیرا بالکل نہیں ہوگا اور اس وقت شہر میں اسٹریٹس لائٹس روشن نہیں کی جائیں گی اور سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں کی لائٹیں بھی آن نہیں کی جائیں گی۔ یہ یقینا ایک انقلاب ہوگا۔ چینی سائنسی تحقیق میں شامل ایک ماہر جیانگ ژی کا کہنا ہے کہ ہم جو روشنی کا سیارچہ خلا میں بھیج رہے ہیں وہ زمین سے قریب ہوگا جس کی وجہ سے روشنی جلد اور مناسب مقدار میں زمین پر پڑے گی۔ یہ سیارچہ زمین سے تقریباً 500 کلومیٹر اونچا ہوگا۔ جبکہ اس کی نسبت چاند کا زمین سے فاصلہ تین لاکھ اسی ہزار کلومیٹر ہے۔ اس کی وجہ سے زمین پر روشنی ہی روشنی ہوگی۔ خلیجی نیوز پورٹل الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی ماہرین نے بتایا ہے کہ مصنوعی چینی چاند پوری رات باقاعدہ اصلی چاند کی طرح کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکے گا۔ انسانی ہاتھوں سے تیار کیا جانے والا یہ مصنوعی چاند ریاست سی چوان کے اسپیس مرکز ’’ژی چاند اسپس سیٹلائٹ لانچ سینٹر‘‘ سے 2020ء میں خلا میں روانہ کیا جائے گا۔ چینی سائنسی ادارے تیان فو نیو ایرا سائنس سوسائٹی کے ڈائریکٹر وو چن فین کا استدلال ہے کہ یہ مصنوعی چاند ہماری صنعت اور معیشت کیلئے کس قدر اہمیت رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے چڑھنے کے بعد صرف ایک شہر چینگ ڈو میںایک ارب بیس کروڑ یوآن یعنی ساڑھے 17 کروڑ امریکی ڈالرز کی بجلی کی بچت ہوگی۔ یقیناً یہ ایک بڑا بریک تھرو ہوگا، جس کے بعد ہم اس چاند کا مزید شہروں پر فوکس بڑھائیں گے اور یہاں بھی اسٹریٹس لائٹس کی بچت کریں گے۔ چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اس چاند اور اس کی روشنی کو تحقیق کرنے والے علاقوں، جنگلات اور جیل خانوں سمیت ایسے علاقوں پر پھیلائیں گے، جہاں سیلاب یا زلزلہ آیا ہو یا بجلی کی فراہمی نہیں ہے۔ چینی ماہرین کی انوکھی حکمت عملی اور سائنسی تحقیق کی بابت سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں نے کئی برسوں کی تحقیق کے بعد سورج کی روشنی کو سیارچوں کی مدد سے جمع کرنے اور اس کو مخصوص شب کے اوقات میں زمین پر منعکس کرکے بھیجنے کا تجربہ کرلیا ہے، لیکن اس کی ٹیکنالوجی کی بابت ابھی امریکی و روسی ماہرین کو مطلع نہیں کیا ہے کیوں کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو عام نہیں کرنا چاہتے اور چینی شہروں کو سب سے پہلے رات میں ضرورت کے تحت روشن کرنا چاہتے ہیں تاکہ چین کو اگلے چند برس میں بجلی کے بغیر بھی روشن رکھا جائے اور اربوں ڈالرز بچائے جاسکیں۔ ایک چینی ماہر سائنسدان نے بتایا ہے کہ حکومت اسٹریٹس لائٹس کی جگہ مصنوعی چاند چڑھا کر سورج کی روشنی کا انعکاس کرکے زمین کے مخصوص حصوں کو روشن کرنے میں کامیاب ہے اور اس کی مدد سے شہروں میں بجلی کی قیمتیں بھی گر جائیں گی اور جب رات میں شہر روشن ہوگا تو یہاں بچائی جانے والی کروڑوں یونٹس بجلی سے صنعتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جاسکے گا۔ چینی حکام کے حوالہ سے بائو نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ سائنسدانوں نے جدید تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے سیارچہ بنالیا ہے، جو سورج کی روشنی کو منعکس کرے گا اور اس سیارچے کو دو برس کے بعد زمین کے مدار میں بھیجے گا۔ چینی میڈیا کے مطابق یہ نیا سیارچہ illuminated satellite کہلائے گا اور اس کو چین کا مصنوعی چاند بھی کہا جائے گا۔ تیان فو نیو ایرا سائنس سوسائٹی کے ڈائریکٹر وو چن فین نے بتایا ہے کہ اس مصنوعی چاند یا سیارچے کی ٹیسٹنگ کی جاچکی ہے اور 2020 میں اس سیارچے کو خلا میں بھیجا جائے گا۔ جبکہ اگلے تین ماہ میں اس کو فنکشنل کردیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس ضمن میں یہ دیکھنا پسند کریں گے کہ آیا مصنوعی چاند کی وجہ سے ہمارے ماحولیاتی نظام پر کس قسم کے منفی یا مثبت اثرات پڑیں گے کیوں کہ مصنوعی چاند بالآخر مصنوعی ہوتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭