حجرہ نشین بڑی بی نے وزیرخانم کو حیران کردیا تھا

0

نہ جانے کب وزیر خانم کو نیند آگئی۔ وہ کچھ اس قدر بے سدھ سوئی تھی کہ حبیبہ کے جگانے پر بھی نہ جاگی۔ رات کا کھانا یوں ہی رکھا رہ گیا۔ لیکن تین گھڑی رات رہے اس کی نیند کھل گئی اور بار بار کروٹیں لینے، دل کو بہلانے، درود شریف پڑھنے کے باوجود نیند سے پھر نہ آئی۔ آخر صبح کاذب کی ملگجی لکیر آسمانوں میں دوڑی اور چند ثانیہ بعد نماز فجر کے لیے اذانیں ہونے گی۔ آیہ مبارکہ سلام ’ھِیَ حَتّیٰ مَطلَعِ الفَجر‘ اس کے دل میں گونج گئی۔ سلامتی اور امن کی رات ہے یہ شب، طلوع ہونے فجر تک۔ کاش وہ رات بھر اس طرح بے حواس نہ سوئی ہوتی۔
حبیب النسا نے پالکی کا اہتمام رات ہی کو کر لیا تھا۔ جب وزیر خانم کی سواری پرانی عید گاہ کی چڑھائی پر پہنچی تو سامنے بلند دروازے کے ذرا اندر ایک شکستہ پھونس کے چھپر کے آگے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوتا ہوا نظر آیا۔ ایک متوسط سا حجرہ، اس کے آگے لمبا سا دالان، حجرے کے اندر کا حال نظر نہ آتا تھا۔ وزیر اور حبیبہ از سر تاپا سیاہ چادر میں لپٹی ہوئی تھیں، صرف دونوں کے پنجے اور آنکھوں کا کچھ حصہ نظر آتا تھا۔ پالکی سے اتر کر دونوں ہچکچاتے ہوئے قدموں سے برآمدے تک آئیں، کوڑیوں کے دو بدرے لیے ہوئے ایک کہار پیچھے پیچھے چلا آتا تھا۔ دالان کرسی بہت نیچی تھی، لیکن اوپر چڑھنے کے لیے ایک قدم کا زینہ پھر بھی بنا ہوا تھا۔ دونوں عورتوں کی بیگماتی چال ڈھال اور نسبتاً قیمتی چادریں، نفاست کی بنا پر سب نے انہیں راستہ دے دیا۔ لیکن ایک عورت نے وزیر کا دامن تھام کر اسے ایک لمحے کے لیے روکا اور کہا: ’’بی صاحب۔ ابھی حجرہ کھلا نہیں ہے۔ آپ یہیں ٹھہر جائیں۔ اور اگر آپ کو حاضری کا حکم ملے تو للہ مجھے بھی بلوا بھیجئے گا‘‘۔
وزیر ٹھہر گئی اور اس نے حبیبہ اور کہار کو وہیں دالان کے نیچے رکنے کا اشارہ کیا۔ لیکن ابھی اس نے کچھ کہا نہ تھا کہ متوسط عمر کی نامانوس ناک نقشے والی شریف صورت لیکن خادم نما عورت نے حجرے کا دروازہ اندر سے کھولا اور کچھ گفتگو کے سے لہجے میں ذرا بلند لیکن شائستہ آواز میں کہا: ’’وہ خانم کے بازار والی کون ہیں؟ بائی جی سرکار یاد فرماتی ہیں‘‘۔ اس کی آواز میں دکن کی راگ راگنیاں لہرا رہی تھیں۔
وزیر نے گھبرا کر ادھر ادھر نظر کی، لیکن کوئی عورت اپنی جگہ سے اٹھتی ہوئی نہ دکھائی دی۔ لیکن مجھے بھلا کیسے پہچان لیا گیا ہوگا، میں تو پہلے کبھی آئی بھی نہیں۔ پھر بھی اس نے سوچا کہ اٹھوں، لیکن ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس نے حبیبہ کی طرف مستفسرانہ دیکھا، لیکن حبیبہ کی آنکھوں سے خود ہی کچھ الجھن اور کچھ خوف ٹپک رہا تھا۔ خادمہ نما عورت نے مڑ کر حجرے کی طرف دیکھا، اندر سے بہت آہستہ سروں میں کچھ کہا گیا، اسے سن کر وہ مجمعے کی طرف منہ کر کے بولی: ’’جناب میں کہتی ہوں وہ خانم کے بازار سے کون اماں تشریف لائی ہیں، سنگ باسی والی مسجد کے سامنے سے۔ دیری نہ کریں، بائی جی کو فرصت آج زیادہ نہیں‘‘۔
اب مجبور ہو کر وزیر اپنی جگہ سے اٹھی۔ اس نے حبیبہ کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا اور کوڑیوں کی تھیلیاں اپنے ہاتھوں میں لے لینا چاہیں۔ لیکن جس عورت نے کچھ دیر پہلے وزیر سے اپنے بارے میں سفارش کے لیے کہا تھا، وہ جلدی سے آگے بڑھی اور کوڑیوں کے بدرے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئی بولی: ’’اے قربان جاؤں، بندی اٹھا لے گی۔ آپ زحمت نہ کریں‘‘۔
اس پر بائی جی کی خادمہ نے اس عورت کو ایک نگاہ بھر گھورا۔ وہ عورت سہم کر ذرا سکڑ سی گئی، لیکن اپنی جگہ سے ہٹی نہیں۔ ’’نکو صاحب۔ ذری کی ذری غم کھاؤ میری بنو‘‘۔ اس نے کچھ طنز، کچھ خوش مزاجی سے کہا۔ ’’یہ تھیلئیں تو ہم اٹھاویں گے۔ تم چپکی بیٹھی رہو‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے دونوں بدرے اس عورت سے لے کر وزیر اور حبیبہ کو اشارہ کیا کہ اندر آجایئے۔ ان کے داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر لیا گیا۔ یہ کچھ انہونی سی بات تھی، کیونکہ دروازہ ایک بار کھلنے کے بعد بند نہ ہوتا تھا۔ وزیر اور حبیبہ سنبھل کر پاؤں رکھتی ہوئی اندر پہنچیں۔ حجرے میں دھندلی سی روشنی ایک دو روزنوں سے جھلک رہی تھی۔ کوئی چراغ اگر تھا تو بجھا دیا گیا تھا۔ مونج کی ایک لمبی سی چٹائی وسط حجرے میں بچھی ہوئی تھی۔ اس پر کسی اور گدے یا تکیے کے سہارے کے بغیر بائی جی دوزانو بیٹھی تھیں۔ یہی چٹائی شاید ان کا بستر بھی تھی اور مصلیٰ بھی، کیونکہ پلنگ یا چوکی تخت وغیرہ کا حجرے میں پتہ نہ تھا۔ ایک کونے میں صاف گھڑونچی پر نیا گھڑا، اس پر چمچماتا ہوا کٹورا اوندھا دھرا ہوا۔ دائیں جانب طاق میں رحل، اس پر کلام پاک۔ بس یہی بساط اس حجرے کی تھی۔ غسل خانہ اور جائے ضرور کے نام پر ایک چھونپڑی شاید پیچھے رہی ہو، لیکن حجرے سے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ کھانے کی قسم کی کوئی چیز، نہ ہی پکانے اور کھانے کے برتن بھانڈوں کا کوئی پتہ تھا۔ بائی جی کے آگے گوڑیوں کا ایک مختصر سا ڈھیر تھا اور سامنے ایک بوسیدہ سی دری مہمانوں اور صاحبان غرض کے لیے بچھی ہوئی تھی۔
خادمہ نے تھیلیوں کا منہ کھول کر کوڑیاں پرانے ڈھیر میں ملا دیں اور ہاتھ باندھ کر پیچھے کھڑی ہوگئی۔ وزیر نے بدقت تمام آنکھ اٹھائی اور بائی جی کو نظر بھر کر دیکھنا چاہا۔ ان کا ڈیل بہت دبلا تھا، لیکن انداز نشست سے کشیدہ قامتی عیاں تھی۔ کتابی چہرہ، گورا رنگ، بہت بڑی بڑی آنکھیں، لیکن بالکل جھکی ہوئی، گویا مراقبے میں ہوں، آنکھوں کے نیچے ہلکے سرمئی حلقے جو طویل شب بیداریوں کی علامت تھے۔ چہرہ اور ہاتھوں کے سوا ان کا سارا اوپری بدن بہت لطیف زرد چمیلی رنگ پر ہلکی نیلی بوٹیوں والی ملتانی چھینٹ کی چادر میں چھپا ہوا تھا۔ نچلے دھڑ میں وہ سادہ بالکل سفید ململ کا چوڑی مہریوں والا دہلوی طرز کا پاجامہ پہنے ہوئے تھیں۔ ان کے چہرے اور ہاتھوں پر کہیں جھریوں یا عمر رسیدگی کے ڈھیلے پن کا نشانہ نہ تھا۔ ان کے بال تو چادر میں چھپے ہوئے تھے، لیکن ایک دو لٹیں جو چادر کی قید سے کچھ آزاد تھیں، بالکل سیاہ اور چمکدار نظر آتی تھیں۔ ان کی عمر کا کسی کو علم نہ تھا۔ کوئی کہتا تھا ستّر کے ادھر ہیں۔ کوئی کہتا میرے دادا کہتے ہیں ہمارے بچپنے میں بھی ایسی ہی تھیں، جیسی آج ہیں۔ کوئی کہتا محمد شاہ بادشاہ غازی فردوس آرام گاہ جب اللہ کو پیارے ہوئے تو اس وقت وہ کہیں ملک کشمیر سے دلی آئی تھیں اور یہیں کی ہو رہیں۔ اس حساب سے ان کی عمر سو سے بہت اوپر ہے۔ بہرحال ان کی اصل عمر جو بھی رہی ہو، وہ نو عمر ہرگز نہ تھیں۔ ان کے چہرے اور انداز بدن سے عمر کی پختگی بلکہ سن رسیدگی بہرحال نمایاں تھی۔
آنکھیں جھکائے ہوئے ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر، بلکہ پورے وجود میں کچھ ایسی پاکیزگی، تمکنت اور جلالت مآبی تھی کہ وزیر کی آنکھ بار بار جھپک جاتی تھی اور اسے اس لمحے سے خوف لگ رہا تھا، جب بائی جی آنکھیں کھول کر اسے دیکھیں گی۔ اس نے بدن کو اور سمیٹ کر چادر کو اور بھی مضبوطی سے لپیٹ لیا اور دری کے ایک کونے پر ٹک کر بیٹھ گئی۔ حبیبہ اس کے پہلو سے لگ کر لیکن ذرا پیچھے کی طرف بیٹھ گئی، اس طرح کہ اس کا پہلو دری سے باہر ننگے فرش پر تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More