قسط نمبر: 241
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
اب بائی جی نے آنکھیں کھول کر وزیر کو دیکھا۔ اللہ کیسی آنکھیں تھیں، گہری سیاہ آنکھیں جن میں سرخیوں کے لہریئے، لیکن زندگی کی شگفتگی سے عاری۔ لگتا تھا ہر خواہش، ہر تمنا، ہر ضرورت، درد یا انبساط کا ہر احساس، ہر امید، ان آنکھوں سے رخصت ہو چکی ہے۔ سیاہ سمندر کی طرح گہری آنکھیں، جن میں ہر منظر، ہر جذبہ، سما جائے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہوجائے۔ وزیر نے گھبرا سلام کیا اور آنکھیں جھکا لیں۔
بائی جی نے نہایت شیریں لہجے میں، بسم اللہ شریف پڑھی، پھر سورۃ الکوثر کی تلاوت شروع کی۔ تین آیتوں کی تلاوت میں وقت ہی کتنا لگتا۔ جیسے ہی سورہ ختم ہوئی، بائی جی نے ایک مٹھی کوڑیاں اپنے سامنے کی ڈھیری سے اٹھا کر الگ رکھ لیں اور پھر بسم اللہ شریف پڑھ کر پھر سورہ کوثر کی تلاوت فرمائی۔ یہ عمل ستّر بار کیا گیا۔ وزیر کے تو اوسان ہی نہ تھے، وہ صرف ترتیل کی شیرینی کو اپنی روح میں جذب کرنے کی کوشش میں تھی، لیکن حبیبہ نے بعد میں بتایا کہ بائی جی نے گنتی گننے کا کوئی اہتمام نہ کیا تھا، بس خود بخود ہی سمجھ گئی تھیں کہ ستّر بار سورہ کوثر کی تلاوت ہوگئی۔ یا شاید پیچھے کھڑی ہوئی خادمہ نے کوئی اشارہ کر دیا ہو، واللہ اعلم۔
ستّر بار تلاوت کے بعد بائی جی اب پہلی بار اپنی مہمان کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’’کہیے، کیا چاہتی ہیں؟‘‘۔ ان کی آواز میں وہی حلاوت تھی جو ان کی تلاوت میں تھی۔
’’بائی جی پر سب کچھ آئینہ ہے‘‘۔ وزیر نے بدقت اٹک اٹک کر کہا۔
’’نواب شمس الدین احمد کو چھوڑنا ہوگا‘‘۔
ہائے اللہ، بائی جی نے یہ کیا فرمادیا! وزیر کے دل میں ہڑبڑاہٹ اٹھی۔ اس کا جی چاہا کان بند کر لے، کچھ اور نہ سنے۔
’’قلعے کی بیگمات کھلے عام مزاروں پر نہیں جاتی ہیں‘‘۔ بائی نے سمجھانے کے انداز میں فرمایا۔ ’’وہاں پردے کا بڑا اہتمام ہے‘‘۔
’’ل… لیکن م… مم… میرے بچے؟ ان کا کیا ہوگا؟‘‘
’’ہوگا، اچھا ہی ہوگا‘‘۔
’’تو بائی جی صاحب کا حکم ہے کہ میں قلعے کا پیغام قبول کر لوں؟‘‘۔
’’ہمارا کچھ حکم نہیں بابا۔ یہ امور ہونے والے ہیں‘‘۔
’’اور… اور اس کے بعد میرے دکھ دور ہو جائیں گے بائی جی صاحب؟‘‘۔
’’دکھ سکھ دھوپ اور چھاؤں کی طرح ہیں۔ ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ قلعے کی بادشاہت کے بھی دن کبھی پورے ہوں گے‘‘۔
یہ کہہ کر بائی جی نے آنکھیں بند کر لیں۔ پیچھے سے خادمہ نے وزیر کو خفیف سا اشارہ کیا کہ اب آپ کی باریابی ختم ہوگئی۔ دونوں نے اٹھ کر تین تسلیمیں کیں اور الٹے پاؤں واپس ہونا چاہتی تھیں کہ بائی جی نے آنکھیں نیم وا کیں اور کہا: ’’تھیلیاں اٹھانے والی سے کہہ دیں کہ تیرا بچہ تو اب واپس آتا نہیں، پر تو صبر کر، تجھے بدلے میں کچھ مل جائے گا‘‘۔
’’جی بہت خوب‘‘ کہہ کر وزیر اور حبیبہ باہر آئیں۔ وہ عورت سامنے ہی کھڑی تھی۔ ہمک کر بولی۔ ’’اے واری جاؤں، مجھے بلایا ہے کیا؟‘‘۔
’’نہیں، بلایا تو نہیں بی بی، پر کہا ہے کہ وہ بچہ تو شاید نہ ملے، لیکن اللہ آپ کو بدلے میں کچھ دے گا‘‘۔ وزیر نے کہا۔
’’ہائے اللہ‘‘۔ عورت سسکی بھر کر بولی۔ ’’بائی جی نے تو میری دنیا ہی اجاڑ دی‘‘۔
اسی لمحے خادمہ نے دروازے پر آکر سرزنش کے انداز میں کہا۔ ’’شش! گناہ کی باتاں نہ بولو۔ بائی جی سرکار خفا ہوجائیں گے۔ چلو اب یہاں سے چلو‘‘۔ پھر اس نے بلند آواز میں کہا: ’’سب بی بیاں اندر آجائیں‘‘۔
عورتوں کا ہجوم ایک اضطراب کے عالم میں لیکن آہستہ روی سے اندر آنا شروع ہوا۔ وزیر کو باہر دیکھ کر کہاروں نے پالکی دالان سے لگا دی اور اپنی سواریوں کو لے کر خانم کے بازار کو عازم ہوئے۔
وزیر خانم کی پالکی جب دروازے پر واپس پہنچی تو بازار کی چہل پہل شروع ہوچکی تھی۔ نانبائیوں اور حلوائیوں کی دکانیں خاص طور سے کاریگروں، کام کاج والے لونڈوں اور گاہکوں کی ترت پھرت سے گرما گرم نظر آرہی تھی۔ گاہکوں کے انبوہ میں وہیں کے وہیں ناشتہ کرنے والے بھی تھے اور سوکھے یا تازہ پتوں کے دونوں اور کوری ہانڈیوں یا
سکوریوں میں بھروا کر مال پوے، حلوہ پوری، جلیبیاں، ترکاریاں، ملائی، ملائی برف، شیر مال، مچھلی کے کباب، کباب دل، نہاری، وغیرہ بندھوا کر گھر لے جانے والے بھی تھے۔ سارا راستہ کھانے اور مٹھائیوں کی سوندھی اور نمکین یا میٹھی، گھی سے تر خوشبوؤں سے مہک رہا تھا۔ صبح کو مندر جانے والیوں کے لئے گجرے اور پھولوں والوں کی بھی دکانیں کھل گئی تھیں۔
ادھر وزیر کے گھر میں میاں نواب مرزا بھی بستر سے اٹھ، منہ ہاتھ دھو، چاق و چوبند بیٹھے تھے کہ اماں واپس آئیں تو ناشتے کا ڈول ڈالئے، یا جانی رام آجائے تو اسی کو بازار بھیج کر کچھ منگوائیے۔ نواب مرزا کو کچھ خبر نہ تھی سوائے اس کے کہ اماں جان نے رات ہی کو پالکی کا اہتمام کر کے صبح سویرے کہیں جانے کا قصد باندھا تھا۔ اس نے خیال کیا شاید قدم شریف گئی ہوں اور یہ کوئی غیر معمولی بات نہ تھی۔ لیکن جب وزیر کی سواری دروازے پر اتری تو ماں کا منہ غیر معمولی طور پر سوچ بھرا اور سنجیدہ دیکھ کر نواب مرزا گھبرا گیا: ’’اماں جان تسلیمات۔ کیوں خیر تو ہے؟ صبح صبح کہاں تشریف لے گئی تھیں؟ آپ کا منہ کیوں اترا ہوا ہے؟ طبیعت تو صحیح ہے؟ کیا حکیم صاحب‘‘۔
نواب مرزا کے سوالوں کی جھڑی ابھی قائم رہتی، لیکن وزیر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک کر تھوڑی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا: ’’اے میاں صاحب زادے، ذرا چھری تلے دم تو لو۔ سب ٹھیک ہے۔ ابھی چلو جھٹ پٹ ناشتہ کرو، پھر سب باتیں بتاؤں گی‘‘۔
’’اماں جان سچ کہیے گا، کوئی بات تو نہیں؟‘‘۔
’’اے ہے بیٹا بات کیا ہوتی۔ میں اچھی خاصی تو ہوں۔ ابھی سب کچھ بتادوں گی، چلو تم فاقہ شکنی تو کرلو۔ صبح سے بچارے بھوکے بیٹھے ہو‘‘۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post