عمران خان
ایف آئی اے سندھ میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کی جائیں گی۔ ذرائع کے بقول ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ سمیت ایف آئی اے کے مختلف سرکلز کے ایڈیشنل ڈپٹی ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے تبادلے کئے جائیں گے اور ان کی جگہ پولیس کے علاوہ ایف آئی اے کے اپنے بھرتی شدہ افسران کو تعینات کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس وقت ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر سمیت تمام ایف آئی اے صوبائی سرکلز کے انچارج سندھ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے ایس ایس پیز ہیں۔ ذرائع کے بقول یہ فیصلہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں سندھ کے صوبائی اداروں سے مطلوبہ ریکارڈ کے حصول میں سست روی اور اس میں سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے افسران کی عدم دلچسپی کے باعث کیا گیا ہے۔
ذرائع کے بقول ایف آئی اے سندھ میں انتظامی عہدوں پر تبدیلیوں کے حوالے سے ناموں کی فہرست کو حتمی شکل 26 اکتوبر کو کراچی سپریم کورٹ رجسٹری میں منی لانڈرنگ کیس پر ہونے والی سماعت کے بعد دی جائے گی، جس کیلئے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام بھی کراچی میں موجود ہوں گے۔ اس سے قبل موجودہ ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ اور سرکل انچارجز کے ساتھ ایک اہم میٹنگ کی جائے گی، جس میں صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا ۔
ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے سندھ میں تبدیلیاں انتہائی ناگزیر قرار دی جا رہی ہیں۔ کیونکہ منی لانڈرنگ کیس پر تحقیقات ایف آئی اے کی کارکردگی کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ، جے آئی ٹی کے سربراہ ایف آئی اے ڈائریکٹر احسان صادق سمیت کراچی میں منی لاندرنگ کیس پر تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے تفتیشی افسران اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کیس سے ہی ایف آئی اے کی ساکھ جڑی ہوئی ہے۔ ذرائع کے بقول اس کیس کی تحقیقات پر سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے بعض اعلیٰ پولیس افسران نے سندھ حکومت کی اعلیٰ شخصیات کے کہنے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جس کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے احکامات پر جے آئی ٹی کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کی پیش رفت پر اپنی دوسری تحقیقات رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا گیا کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بہت پھیل چکی ہیں اور تحقیقات میں اب تک سامنے آنے والے 77 بینک اکائونٹس سے ہونے والی منی لانڈرنگ کیلئے بینک ٹرانزیکشنز کا حجم ایک کھرب سے بھی بڑھ چکا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کیس پر تحقیقات انتہائی پیچیدہ ہوگئی ہیں، اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 47 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز عام افراد کے بینک اکائونٹس سے ہوئیں، جبکہ 54 ارب روپے کی بینک ٹرانزیکشنز کیلئے کمپنیوں کے اکائونٹس استعمال کئے گئے۔ اس ضمن میں جے آئی ٹی سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ بینکوں سے حاصل کردہ ریکارڈ سے جے آئی ٹی اور ایف آئی اے تفتیشی افسران اپنی تحقیقات تقریباً مکمل کرچکے ہیں، جس میں 6 تفتیشی افسران نے 101 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کے منی ٹریل اپنی فائلوں کا حصہ بنا دیئے ہیں۔ تاہم اس کیس میں ملوث افراد کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کی دفعات کے تحت جرم ثابت کرنے کیلئے کیس کا دوسرا حصہ سندھ کے صوبائی اداروں سے ملنے والے ریکارڈ پر مشتمل ہوگا، جس میں مختلف کمپنیوں اور افراد کو ملنے والے ٹھیکوں کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ اس حصے کو بینکوں سے ملنے والے پہلے حصے کے ساتھ ملا کر کیس کو اسٹیبلش کرنا باقی ہے۔ تاہم سندھ حکومت کی جانب سے ریکارڈ فراہم کرنے کیلئے تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جس کے باعث تحقیقات کے مکمل ہونے اور مقدمات کے اندراج میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ ایف آئی اے کے حکام فکر مند ہیں، کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے ایف آئی اے سندھ کے تمام سرکلوں میں موجود سینئر تفتیشی افسران اور زیادہ تر عملہ منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں کھپایا گیا ہے اور اس وقت منی لاندرنگ کیس ایف آئی اے کیلئے ایک ایسا ہاتھی بن چکا ہے جس نے ایف آئی اے کی ساکھ کو بھی دائو پر لگا دیا ہے، کیونکہ صرف ایک اسی کیس میں ایف آئی اے سندھ کے 70 فیصد سے زائد عملے اور وسائل استعمال کئے جا رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ اور مختلف سرکل کے جو انچارج سندھ پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں، ان کی جانب سے بھی منی لانڈرنگ کیس میں سندھ حکومت سے ریکارڈ طلبی کے حوالے سے اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا۔ بلکہ یہ افسران عملی طور پر ایف آئی اے میں کچھ اس طرح سے کام کررہے ہیں کہ انہوں نے ہر معاملے سے خود کو علیحدہ رکھا ہوا ہے۔ جبکہ کچھ افسران ڈیوٹیوں پر بھی مسلسل نہیں آتے اور جو ڈیوٹیوں پر آتے ہیں وہ جلدی چلے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے سندھ میں تبدیلیوں سے متعلق ذرائع نے جو وجوہات بتائی ہیں اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے کے بھرتی شدہ افسران کے تعینات ہونے سے وہ عہدے ایکٹو کئے جاسکے، جو منی لانڈرنگ کیس کیلئے غیر فعال اور سود مند ثابت نہیں ہورہے ہیں اور وہ افسران تعینات کئے جائیں جو ایف آئی اے سندھ میں اس وقت کمزور اور غیر فعال چین آف کمانڈ کو موثر بناسکیں۔
ذرائع کے بقول جن افسران کے تبادلے زیر غور ہیں ان میں سے دو افسران ایسے بھی ہیں جنہوں نے منی لاندرنگ کیس میں ابتدا میں گرفتار ہونے والے اومنی گروپ کے سربراہ اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی دوست انور مجید اور سمٹ بینک کے صدر حسین لوائی سے اسپتال کے کمرے میں پیپلز پارٹی کے رہنما امتیاز شیخ کی ملاقات کرائی۔ مذکورہ ملاقات کو اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ ابھی تک اس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی تھیں۔ تاہم ایف آئی اے کے بعض افسران کی جانب سے ان سرگرمیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور اس سے تحقیقات کو متاثر کرنے اور اس پر اثر انداز ہونے کے خدشات ظاہر کئے گئے جس کے بعد مذکورہ دونوں افسران کے خلاف اعلیٰ سطح پر انکوائری شروع کی گئی جس میں ایسی تصاویر بھی پیش کی گئیں جن میں سندھ پولیس سے ایف آئی اے میں آنے والے افسران اسپتال کے کمرے میں انور مجید کے ساتھ موجود پائے گئے۔ اس ضمن میں جب امتیاز شیخ سے موقف کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا اور موبائل نمبر پر ارسال کردہ ایس ایم ایس پیغام کا بھی جواب نہیں دیا۔
٭٭٭٭٭