قندھار حملے پر افغان حکومت میں اختلافات

0

امت رپورٹ
قندھار کے حملے میں جنرل عبدالرازق کی ہلاکت کے بعد افغان حکومت میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ بعض حکومتی اراکین کی جانب سے حملے میں امریکا کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ کابینہ اراکین کا کہنا ہے کہ امریکی جنرل اسکاٹ ملر کس طرح ساتھیوں سمیت بچ نکلے۔ دوسری جانب افغان چیف ایگزیکٹو امریکیوں کی وکالت میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ نیٹو کا اس حملے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار میں گزشتہ ہفتے طالبان کے حملے میں پولیس چیف اور انٹیلی جنس چیف کی ہلاکت اور افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر اور ان کے تین ساتھیوں کے صحیح سلامت نکلنے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز کئی وزرا نے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے سوال کیا کہ افغان طالب نے کس طرح سیکورٹی کلیئرنس حاصل کی۔ جبکہ کلیئرنس دینے کی ذمہ داری امریکی فوج کی تھی۔ طالبان کا حمایت یافتہ گارڈ کیسے کلاشنکوف سمیت اجلاس میں ڈیوٹی دینے پہنچ گیا۔ جبکہ حملہ آوور کی فائرنگ کے وقت وہاں موجود امریکی فوج نے فائرنگ نہیں کی اور یہ بات بھی باعث حیرت ہے کہ گارڈ نے امریکی فوجی جنرل کو نشانہ نہیں بنایا۔ کابینہ اراکین کے ان سوالات کے جواب میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق گارڈ کی تعیناتی کیلئے جعلی اسناد استعمال ہوئی ہیں۔ تاہم ہمارے اتحادیوں کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ امریکہ اور افغان حکومت کے تعلقات خراب کرنے کیلئے بعض حلقے اس طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ اس حملے میں امریکی ملوث ہیں۔ دوسری جانب افغان خفیہ ادارے این ڈی ایس کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے الزام عائد کیا ہے کہ جنرل عبدالرازق پر حملے میں بیرونی قوتوں کا ہاتھ ہے۔ حملہ آوور کی تربیت افغانستان سے باہر ہوئی تھی۔ جبکہ افغانستان کے خفیہ ادارے کے موجودہ سربراہ معصوم استنکزئی نے رحمت اللہ نبیل کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان کے اندر ہی اس گارڈ کی تربیت ہوئی ہے۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی کسی ہمسایہ ملک میں ہوئی ہے۔ ذرائع کے بقول یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد این ڈی ایس نے پاکستان پر الزام عائد نہیں کیا۔ بلکہ کہا ہے کہ پکتیا کے رہنے والے افغان طالبان کے حمایتی گارڈ نے حملہ کیا اور اس کو بیرونی حمایت حاصل نہیں تھی۔ جو لوگ ایسے الزامات عائد کر رہے ہیں کہ بیرونی قوتیں اس میں ملوث ہیں، تو وہ اس حوالے سے ثبوت پیش کریں۔ ذرائع کے مطابق امریکہ نے جس جنرل جینفر کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے، وہ بھی لوگر میں طالبان کے ایک حملے میں چار ساتھیوں سمیت زخمی ہوا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قندھار حملے میں امریکی فوج کے کسی اہلکار کو خراش تک نہیں آئی، اسی وجہ سے کابینہ اراکین اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس واقعہ میں نیٹو ملوث ہے۔ ذرائع کے بقول جنرل عبدالرازق اور ان کے ساتھی پاکستان سے تعلقات خراب کرنے کے علاوہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے راستے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ جنرل عبدالرازق کی جگہ تادین کو نیا پولیس چیف مقرر کر دیا گیا ہے۔ جبکہ کابینہ اراکین کی جانب سے قندھار حملے پر تحفظات کے اظہار کے بعد افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے قندھار میں پرامن انداز سے انتخابات کا انعقاد افغان حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا۔ افغان طالبان کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں ان کا حمایتی گارڈ کہہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں ظلم کا بدلہ لے رہا ہے اور جہاد کی خاطر یہ اقدام انجام دے رہا ہے۔ دیگر لوگ بھی اس کے راستے پر چل کر جہاد میں اپنا کردار ادا کریں۔ افغان حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے حملے سے قبل افغانستان کے اندر دو کالز کی تھیں، جس کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ ان کالز کو ٹریس کرکے معلوم کیا جائے گا کہ حملے کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی۔ پھر تحقیقات عوام کے سامنے لائی جائیں گی۔ ذرائع کے بقول ڈاکٹر عبداللہ کی وضاحتوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ افغان کابینہ کے اراکین اور دیگر حلقے قندھار حملے میں امریکہ کے ملوث ہونے کو خار ج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔ اگر اس حملے میں امریکہ کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آجاتے ہیں تو یہ ان جنگجو کمانڈروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو طالبان سے مذاکرات کے مخالف ہیں۔ ذرائع کے بقول امریکہ افغانستان کی دلدل سے نکلنا چاہتا ہے، لیکن جو لوگ اقتدار کی خاطر امریکیوں کو افغانستان میں پھنسانا چاہتے ہیں یا افغانستان میں خانہ جنگی کا سبب بن سکتے ہیں، ان کو راستے سے ہٹانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ شمالی اتحاد کے جنگجو گزشتہ کئی سال سے طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ کے نقصانات میں روز بروز اضافے ہو رہا ہے اور امریکی حکام پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More