میگزین رپورٹ
سعودی عرب کی جانب سے بھاری سیاسی رشوت کو مسترد کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردگان نے جمال خشوگی کے قاتلوں کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ دو روز قبل گورنر مکہ شہزادہ خالد الفیصل نے ترکی کا خفیہ دورہ کرکے صدر اردگان سے ملاقات کی تھی۔ جس میں شاہ سلمان کی طرف سے منہ مانگی رشوت کی پیشکش کی تاکہ ترکی اس مسئلے پر مٹی ڈال دے۔ لیکن اردگان نے یہ پیشکش مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ سعودی عرب، قطر کا محاصرہ ختم کر دے۔ الجزیرہ کے دعوے کے مطابق ادرگان کے اس مطالبے کو سعودیہ نے تسلیم نہیں کیا، جس پر اردگان نے منگل کے روز پارلیمنٹ میں خشوگی قتل کیس کے معاملے کو پیش کر دیا۔ اردگان کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خشوگی کے داخلے سے قبل ایک 15 رکنی سعودی ٹیم قونصل خانے پہنچ چکی تھی، جس نے قتل کی کارروائی مکمل کرتے ہوئے شواہد ختم کرنے کی کوشش بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی انتظامیہ نے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ تاہم مقتول کی لاش سمیت بہت سے سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ اس اہم معاملے کو چند سیکورٹی اہلکاروں اور خفیہ سروس کے کارکنان پر تھوپنا رائے عامہ کو مطمئن نہیں کرے گا۔ جس کسی نے بھی اس گھناؤنے فعل کے احکامات جاری کئے ہیں، اس کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کا منگل کو حکمراں جماعت جسٹس پارٹی کے اراکین اسمبلی سے خطاب میں کہنا تھا کہ سعودی حکومت جمال خشوگی کے قاتلوں کو ترکی کے حوالے کرے۔ کیونکہ اپنی سرزمین پر منظم انداز میں کئے جانے والے ہائی پروفائل قتل کے پس پردہ محرکات و کردار کے بارے میں جاننا اور یہ کیس اپنی عدالت میں چلانا، ترکی کا حق ہے۔ ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ طیب اردگان نے سعودی موقف پر تنقید کرنے سے گریز کیا، لیکن ان کا اصرار تھا کہ جمال خشوگی کا قتل حادثاتی نہیں، بلکہ احتیاط سے طے کیا جانے والا منصوبہ تھا۔ تاہم انہوں نے سعودی ولی عہد یا بادشاہ کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، البتہ خشوگی کے قتل کو ’’سیاسی قتل‘‘ قرار دیا۔ ترک صدر نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران مزید کہا کہ چونکہ یہ عالمی معاملہ ہے اور ترک سرزمین پر رونما ہوا ہے، اس لئے اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری ترکی ہی کی ہے۔ جرمن میڈیا کے مطابق ہے کہ ترک حکام، خشوگی قتل کیس کی تحقیقات میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ ترک حکام نے ایک جانب امریکی انٹیلی جنس کو خشوگی کیس کے ثبوت و شواہد اور بالخصوص اس کی ہلاکت کی ویڈیو اور آڈیو حوالے کرنے سے احتراز کیا ہے، تو دوسری جانب سعودیہ میں گرفتار کئے گئے تمام ملزمان اور 15 رکنی ہٹ اسکواڈ کی ترکی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ قاتلوں کو کسی بھی قیمت پر سفارتی ڈھال نہیں ملنی چاہئے اور ویانا کنونشن بھی اس کی مخالفت کرتا ہے۔ اردگان کے مطابق خشوگی کا قتل ایک منظم پلان اور وحشیانہ کارروائی تھی اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ خشوگی کے قتل کا حکم کس نے دیا؟ ترک جریدے ڈیلی صباح کے مطابق صدر اردگان نے سعودی حکام سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ خشوگی کی لاش ٹھکانے لگانے والے عناصر کی شناخت بھی ظاہر کرے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ انہیں سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کی نیت پر شک نہیں، لیکن خشوگی کے قتل کو ’’اتفاقیہ‘‘ قرار دینا ترکی کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ خشوگی کے قاتلوں کیلئے سفارتی چھتری کا استعمال بھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ جس وقت ترک صدر اردگان یہ خطاب کر رہے تھے تو عین اسی وقت سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس کا آغاز ہوچکا تھا۔ واضح رہے کہ اس کانفرنس کا جرمنی، امریکہ، کینیڈا، فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک کے سرمایہ داروں نے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ جبکہ کینیڈا اور جرمنی کی جانب سے سعودیہ کو ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ادھر ترک وزیر خارجہ احمد چائوش اوغلو نے ایک بریفنگ میں تصدیق کی ہے کہ صدر اردگان اور سعودی شاہ سلمان بن عبد العزیز کے درمیان ٹیلیفونک گفتگو ہوئی ہے اور دونوں رہنمائوں نے دو طرفہ معاشی اور سفارتی تعلقات کی مضبوطی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اوغلو کا مزید کہنا تھا کہ شاہ سلمان نے ترک قیادت کو یقین دلایا ہے کہ وہ جمال خشوگی کے قتل کی تحقیقات میں بھرپور تعاون کریں گے۔ دوسری جانب ترک تفتیش کاروں کے مطابق 15 رکنی سعودی ہٹ اسکواڈ میں سے ایک شخص کو بطور خاص اس لئے شامل کیا گیا تھا کہ وہ جمال خشوگی جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہی شخص جس کا نام مصطفی بتایا جاتا ہے، جمال خشوگی کا لباس پہن کر اور نقلی داڑھی لگا کر قونصل خانے کے عقبی گیٹ سے باہر نکلا اور استنبول کی سلطان احمد مسجد کی جانب گاڑی میں گیا اور وہاں کے باتھ روم میں خشوگی کا لباس، چشمہ اور گھڑی سمیت دیگر سامان چھوڑ کر فرار ہوگیا، تاکہ تحقیقات میں الجھاوے پیدا کئے جاسکیں۔ دوسری جانب بدھ کی سہ پہر برطانوی میڈیا کا دعویٰ بھی سامنا آیا تھا کہ جمال خشوگی کی لاش کے ٹکڑے سعودی قونصل جنرل کے گھر سے برآمد ہوئے ہیں۔ لاش کو کئی ٹکڑے کرکے قونصل جنرل کے گھر کے باغیچے میں دفن کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭