سعودیہ اور ترکی کے درمیان کشیدگی کم ہونے کا امکان

0

ضیاء الرحمن چترالی
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے قتل کے بارے میں بالآخر خاموشی توڑ دی۔ انہوں نے کہا ہے کہ خشوگی کے بہیمانہ قتل سے سعودی عوام سمیت تمام انسانوں کو صدمہ پہنچا ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ اس حوالے سے ترک حکام سے بھی مکمل تعاون کیا جائے گا۔ العربیہ کے مطابق سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ کچھ قوتیں خشوگی واقعہ کو سعودی عرب اور ترکی کو مد مقابل لا کھڑا کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن شاہ سلمان اور صدر اردگان کی موجودگی میں وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ تحقیقات کر کے اصل مجرموں تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ قبل ازیں بدھ کے روز ترک صدر رجب طیب اردگان نے سعودی ولی عہد کو فون کر کے قاتلوں کو سزا دلانے میں مدد کی اپیل کی تھی۔ الجزیرہ کے مطابق صدر اردگان نے کہا کہ وہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرنا چاہتے ہیں، جس میں سعودی عرب کی مدد درکار ہے۔ سعودی ولی عہد کے بیان اور ترک صدر کی کال سے سعودی عرب اور ترکی میں جاری کشیدگی میں کمی آنے کی امید ہے۔ دوسری جانب جمال خشوگی کی لاش کا معاملہ ہنوز معمہ بنا ہوا ہے۔ ترک خبر رساں ادارے اناضول کے مطابق استنبول کے جنگل بلغراد میں دو اکتوبر کو سعودی قونصل خانے کی ایک گاڑی کو چکر لگاتے دیکھا گیا ہے۔ جس کی سی سی ٹی وی کیمروں کے فوٹیجز میں نشاندہی ہوئی ہے۔ ممکنہ طور پر اسی گاڑی میں مقتول صحافی کی باقیات کو ٹھکانے لگایا گیا ہوگا، جس کی ترک ادارے تحقیق کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ خشوگی کی لاش سعودی قونصل جنرل کے گھر میں دفن کی گئی تھی، جسے نکالا گیا ہے۔ مگر ترک ذرائع ابلاغ نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی۔ امریکہ، مغربی ممالک اور ان کا میڈیا جمال خشوگی کے معاملے کو زیادہ اہمیت کیوں دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز امریکی سی آئی اے کی سربراہ بھی معاملے کی تحقیقات کیلئے ترکی پہنچ چکی ہے۔ جبکہ سعودی عرب پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ امریکی حکومت نے 21 سعودی ذمہ داروں کے امریکہ میں داخلے پر پابندیاں عائد کرنے پر غور شروع کیا ہے۔ جبکہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ باخبر عرب مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی قوتوں کو نہ تو انسانیت کا کوئی غم ہے اور نہ ہی آزادیٔ صحافت کی کوئی فکر۔ دراصل جمال خشوگی امریکہ اور اس کے حواریوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ جمال خشوگی نے سی آئی اے کی جھوٹی رپورٹوں کے سہارے کئی مضامین لکھے تھے۔ جن میں عراق کے خطرناک جوہری ہتھیاروں کا ہوّا کھڑا کیا گیا تھا۔ انہی جعلی رپورٹوں کی بنیاد پر امریکہ نے عراق پر حملے کا جواز تلاش کیا۔ اگرچہ بعد میں سی آئی اے نے خود انکشاف کیا کہ اس نے یہ غلط رپورٹ امریکی حکومت کو بنا کر دی تھی۔ انہی رپورٹوں کی بنیاد پر خشوگی نے کئی مضامین لکھ کر عراق پر حملے کیلئے رائے عامہ کو ہموار کیا۔ اس لئے عراق کی تباہی میں اس کا بھی بنیادی کردار ہے۔ علاوہ ازیں بعض معتمد سعودی ذرائع کا یہ بھی اصرار ہے کہ جمال خشوگی سعودی ولی عہد پر قاتلانہ حملے میں ملوث تھا۔ رواں سال اپریل میں سعودی ولی عہد پر ریاض کے شاہی محل کے قریب ہونے والے اس قاتلانہ حملے کا ماسٹر مائنڈ جمال خشوگی ہی تھا۔ اسے اس معاملے میں تحقیقات کے لئے حراست میں لے کر سعودی عرب لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ لیکن جذباتی انٹیلی جنس افسران نے ناکامی کے خوف سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چونکہ امریکی ادارے ابھی جمال سے مزید کام لینا چاہ رہے تھے، لیکن اس کے قتل نے ساری کہانی الٹ دی۔ تاہم سعودی حکومت اس معاملے کو بوجوہ طشت ازبام کرنا نہیں چاہتی۔ دوسری جانب امریکی حکومت بھی جمال خشوگی معاملے کے بارے میں آئے روز بیانات بدلتی رہتی ہے۔ جب سعودی حکومت نے اس کے قتل ہونے کا اعلان کیا تو صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس دعوے کو تسلیم کرلیا۔ اب تازہ بیان میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ خشوگی قتل کیس میں سعودی عرب نے پردہ ڈالنے کی بدترین کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ خدشہ ہے جمال خشوگی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں تمام معاملات سعودی ولی عہد چلا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس کسی نے بھی اس کی منصوبہ بندی کی تھی، وہ بہت مشکل میں ہوگا اور اس کو ہونا بھی چاہئے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی کہا ہے کہ امریکہ اس قتل کے ذمہ داران کو سزا دے گا اور اس معاملے میں ملوث 21 ملزمان کے ویزے منسوخ کیے جا رہے ہیں اور مستقبل میں ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ پومپیو کے مطابق ان افراد کا تعلق سعودی خفیہ اداروں، رائل کورٹ اور وزارتِ خارجہ سے ہے۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More