پہلی قسط
احمد خلیل جازم
حافظ محمدابراہیم پیدائشی مسلمان تھا، لیکن بعد ازاں وہ قادیانی ہوگیا اور کئی برس تک قادیانیت کی تبلیغ کرتا رہا۔ حافظ ابراہیم ایک اہلحدیث عالم دین کا بیٹا ہے اور اب قادیانیت سے تائب ہوکر دوبارہ اسلام سے رجوع کرکے اس جہنمی دور کی تلخ یادیں بھلا رہا ہے۔ حافظ ابراہیم نے اینٹی قادیانی گروپ بنایا اور پھر قادیانی مذہب کو سمجھنے کی غرض سے جب قادیانی مبلغوں سے بات چیت کی تو انہوں نے اسے قادیانی کرلیا۔ ابراہیم کے مطابق آج بھی قادیانی پڑھے لکھے مسلمانوں کو وفات مسیح کے معاملے پر ٹریپ کرلیتے ہیں۔ عام مسلم علمائے دین کے پاس وفات مسیح کے معاملے پر ان کے دلائل کے جواب میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے ایک عام مسلمان قادیانیوں کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ حافظ ابراہیم بھی اسی طرح ان کے جال میں پھنسے۔ اگرچہ بعد ازاں وہ اس جال سے نکل گئے، لیکن آج بھی ان کے گھر والوں نے حافظ ابراہیم کی یہ خطا معاف نہیںکی۔ اگرچہ وہ دوبارہ کلمہ پڑھ چکا ہے، لیکن ا بھی تک اپنے گھر نہیں جا سکا۔ حافظ ابراہیم سے قادیانیت اور دوبارہ قبول اسلام کے حوالے سے کی گئی گفتگو انہی کی زبانی قارئین امت کے لئے پیش کی جارہی ہے۔
’’میں لاہور میں واہگہ روڈ پر 1973ء میں پیدا ہوا۔ بچپن لاہور اور کچھ فیصل آباد میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ میٹرک اور ایف اے لاہور سے ہی کیا۔ اس کے علاوہ مدارس میں زیر تعلیم رہا اور ڈیڑھ برس میں حفظ قرآن کی سعادت بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ مختلف مدارس جیسے جامعہ سلفیہ میں دینی تعلیم سے بہرہ مند ہوتا رہا۔ میرے والد کا نام مولوی چنن دین تھا، جو امام مسجد اور عالم دین تھے۔ ہمارا خاندان سلفی کے نام سے معروف تھا۔ بچپن سے ہی گھرانہ مذہبی تھا۔ ماحول مکمل مذہبی تھا۔ جوانی میں مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں سے بھی وابستگی رہی۔ ا نہی دنوں ایک چھوٹا سا واقع ہوا۔ ایک اہلحدیث حکیم خوشی محمد کا قتل ہوا۔ وہ ایک اور مسلک کے خلاف بہت بولتے تھے۔ چنانچہ لوگوں کا گمان تھا کہ انہیں اسی مسلک کے لوگوں نے قتل کیا ہے۔ وہ بہت شریف آدمی تھے۔ اسی دوران کچھ دوستوں نے کہا کہ وہ قتل تو ہوگئے، لیکن ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ دراصل میں یہ باتیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ اندازہ ہو کہ میں قادیانیت کی جانب کیسے راغب ہوا۔ چنانچہ ہم لوگوں نے احتجاج کیا اور روڈ بلاک کردیا۔ یہ 2000ء کی بات ہے کہ ہم نے اس قتل پر واہگہ روڈ بطور احتجاج بلاک کیا۔ میرا اس میں کوئی خاص کردار نہ تھا، بس کچھ دوستوں کو پیغام دیا اور یوں یہ احتجاج ہوا۔ میرے دوستوں کو احساس ہوا کہ ہم لوگوں کو اپنی کوئی تنظیم بنانی چاہیے۔ چنانچہ ہم لوگوں نے قریباً ڈیڑھ سو لڑکوں پر ایک گروپ بنالیا۔ میں اس وقت شباب ملی تنظیم کا روح رواں تھا۔ تمام چنیدہ مسالک پر مبنی لڑکوں کو اکٹھا کرکے ایک گروپ بنا لیا گیا۔ دوستوں کی رائے تھی کہ میں دوستوں کو جمع کر سکتا ہوں، اس لیے اس گروپ کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ پھر دوستوں نے کہا کہ یہاں قادیانی ہیں۔ اینٹی قادیانی موومنٹ کے نام سے گروپ بنایا جائے۔ ابھی یہ مراحل طے ہی ہو رہے تھے کہ کچھ دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ قادیانیوں کے بارے جانتے ہیں۔ میں نے کہا کہ کچھ خاص نہیں تو انہوں نے کہا کہ کبھی ربوہ گئے ہیں۔ میرا جواب نفی میں تھا، تو انہوں نے بتایا کہ ان کا ایک چینل بھی چلتا ہے۔ ان کے اس وقت خلیفہ مرزا طاہر لندن میں ہیں۔ پہلے ان کے بارے میں سب کچھ معلوم کرنا چاہے۔ ان کے چینل، اخبار وغیرہ دیکھنے چاہیئں۔ کیونکہ آپ گروپ کے چیئرمین ہوں گے۔ ایک دوست کے کچھ رشتہ دار قادیانی تھے۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو اپنے کچھ رشتہ داروں سے ملواتاہوں، تاکہ آپ ان سے انفارمیشن لے سکیں اور ہم یہ سلسلہ آگے بڑھا سکیں۔ چنانچہ ہم ان کی طرف گئے، اور میں نے ان کے خلیفہ کی تقریر سنی۔ میں پہلی بار کسی قادیانی کو سن رہا تھا۔ اس وقت تک مجھے احمدی، قادیانی اور مرزائی کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ بہت سے لوگوںکی طرح میں بھی انہیں الگ الگ سمجھتا تھا۔ اس تقریر میں اس نے قرآن و حدیث کی بات کی اور عین اسلامی گفتگو کی۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ تو قرآن و حدیث کی بات کرتے ہیں، یہ برے لوگ تو نہیں ہیں۔ انہی دنوں ایک شخص خدابخش عابد سے ملاقات ہوئی۔ وہ میرے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تقریر سن رہا تھا۔ ان سے بعد میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے دعوت بھی دی کہ آئیں میرے گھر چلیں۔ ان کے ڈرائینگ روم میں گیا تو وہاں تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ بڑی تصویر مرزا غلام احمد کی اور باقی پانچ خلفا کی تھیں۔ اس نے مرزا طاہر کی تصویر دکھا کر کہا کہ یہ ہمارے موجودہ خلیفہ ہیں۔ پہلی اور بڑی تصویر کے بارے میں استفسار کرنے پر اس نے بتایا کہ یہ وہ ہیں، جنہوں نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اب ایک بندہ جو اہلحدیث مسلک کا ہو یا سنی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، تو اسے ایسی بات بہت بری لگتی ہے۔ حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت امام مہدیؑ نے ضرور آنا ہے۔ چنانچہ میری اس شخص سے اسی پر بحث شروع ہوگئی۔ یہ سلسلہ چل نکلا اور وہ مجھے قرآن و حدیث سے دلائل دیتا رہتا۔ ادھر میری تنظیم کے لوگ میرے پاس آتے تو میں ان کے ساتھ اس شخص کے ساتھ کی گئیں باتیں کرتا۔ وہ یہ سب سن کر مجھ سے الگ ہونا شروع ہوگئے ۔اسی دوران وفات مسیح کا مسئلہ سامنے آیا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ قادیانیوں کے پاس یہ ایک ایسا ہتھیار ہے، جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو قادیانیت کی جانب مائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس نے کچھ قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ (نعوذ بااللہ) حضرت عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں۔ آج مجھے یہ بات کہہ لینے دیجیے کہ یہ واحد مسئلہ ہے، جس کی بنیاد پر مسلمان قادیانی ہوتے ہیں۔ جب یہ مسئلہ میرے سامنے آیا تو میں نے اپنے علمائے دین سے رابطہ کیا، اور ان کے پاس پر جاکر بات کی، تو اس پر علاقے بھر کے مولوی حضرات میرے خلاف اکٹھے ہوگئے۔ دراصل پڑھے لکھے لوگ وفات مسیح پر ہی قادیانیوں کے ٹریپ میں آتے ہیں یا پھر انتہائی مذہبی لوگ وفات مسیح کے معاملے پر پھنس جاتے ہیں، کیونکہ ہمارے علما اس پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اگر کرتے ہیں تو وہ ان کو دلیل سے جواب نہیں دے پاتے۔ قادیانی دراصل کہتے ہیںکہ حضرت عیسیٰؑ (نعوذباللہ ) فوت ہوچکے ہیں اور اس حوالے سے وہ قرآن کی تیس آیات نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جس سے وفات مسیح ثابت نہ ہو۔ یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے، لیکن اس کے لیے جب کوئی مسلمان علما کے پاس جاتا ہے تو وہ کہتے ہیںکہ تم قادیانیوں کے پاس جاکر بیٹھتے ہو، قادیانی ہوگئے ہو۔ وہ وفات مسیح پر تو بات ہی نہیں سنتے اور فوراً آپ پر کفر کا فتویٰ ٹھونک دیں گے۔ مجھے بھی کافر قرار دے دیا گیا، اور اس معاملے کو بہت زیادہ اچھالا گیا۔ یعنی میرے سوالات پوچھنے پر ہی مجھے کافر اور قادیانی قرار دے دیا گیا۔ مولوی رمضان سلفی مرحوم سے بات کی۔ انہوں نے بھی مجھے قادیانی قرار دے دیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ وفات مسیح پر بات ہی نہ کرسکے۔ میری کسی بڑے عالم دین سے بات نہ ہوسکی۔ کیونکہ عام مولوی مجھے پہلے ہی قادیانی کہہ کر رد کردیتا تھا۔ مجھے یہ خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں میرے ساتھ کوئی بدتمیزی نہ کرے، کیونکہ کئی مواقع پر مجھے بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا، گالم گلوچ اور مار پیٹ ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ جب زیادہ شور و غوغا ہوا تو میرے والد صاحب کو مسجد جانے سے روک دیا گیا۔ اور یہ پابندی عائد کردی کہ یا تو بیٹے کو گھر سے نکال دو یا پھر مسجد چھوڑ دو۔ ابھی تو میں قادیانی نہیں ہوا تھا، البتہ قادیانیوں سے کھلے عام ملتا تھا، اور صرف تحقیق کی غرض سے ان کے پاس جاتا تھا۔ لیکن ادھر مسلمان علما نے میرے خلاف فتوے نکال دئیے، حتیٰ کہ میرے والد کو بھی مسجد میں آنے سے روک دیا۔ یہ صورتحال میرے گھر والوں کے لیے بہت اندوہناک تھی۔ انہیں میرے بارے میں ہر جاننے والا طعنے دے رہا تھا اوران کا غصہ دن بہ دن بڑھتا جارہا تھا۔ آخرکار میرے گھر والوں نے میرے ساتھ بات کرنے کی ٹھان لی۔ میرے والد اور بھائیوں نے اس موقع پر میرے ساتھ جو کچھ کیا، وہ شاید پڑھنے والوں کے لیے حیران کن ہوگا۔ لیکن یہی حقیقت ہے، جو میں آپ کو بتانے جارہا ہوں‘‘۔ (جاری ہے)