اسرائیلی لابی سعودی ولی عہد کو بچانے کے لئے سرگرم

0

امت رپورٹ
جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے ہر لمحے اپنی پوزیشن تبدیل کرتی سعودی حکومت نے اب یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ باغی صحافی کا قتل ایک طے شدہ منصوبہ تھا۔ دو روز قبل ترک صدر رجب طیب اردگان نے اپنے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا کہ ترکی کے پاس موجود شواہد سے ثابت ہو رہا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ تاہم سعودی حکام کا اصرار تھا کہ خشوگی کی موت حادثے کے طور پر واقع ہوئی۔ واشنگٹن میں ایک امریکی تھنک ٹینک سے جڑے پاکستانی عہدے دار کے مطابق اگرچہ محمد بن سلمان اور رجب طیب اردگان کے درمیان خشوگی کے معاملے پر بات چیت ہوئی ہے، لیکن اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ترک صدر اس قتل کے اصل ذمہ داران تک پہنچنے سے متعلق اپنی کمٹمنٹ سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ عہدیدار کے بقول سعودی بادشاہت کو اس بحران سے نکالنے کے لئے صدر ٹرمپ پر یہودی لابی کا بہت زیادہ دبائو ہے۔ پس پردہ اس سلسلے میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ بالخصوص امریکی کانگریس اور ایگزیکٹو برانچ میں اسرائیل نواز پالیسیوں کا تحفظ کرنے والی طاقتور امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) اس حوالے سے پوری طرح پس پردہ سرگرم ہے۔ ان کوششوں میں کمیٹی کی موجودہ سربراہ لیلائن پنکوس خاص کردار ادا کر رہی ہیں، جو اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے خاصے قریب ہیں۔ عہدیدار کے مطابق تاہم امریکی صدر ٹرمپ کو اندرونی طور پر سخت دبائو کا سامنا ہے اور خود ان کی اپنی پارٹی ری پبلکن اور ڈپلومیٹک پارٹی کے بیشتر ارکانِ سینیٹ کا مطالبہ ہے کہ جمال خشوگی کے قاتلوں کو تحفظ دینے کے بجائے انہیں کٹہرے میں لا کر امریکی اقدار کو بچایا جائے۔ اس سلسلے میں بااثر سینیٹر رکن سینیٹ رجسٹرڈ جوزف ڈربن نے اپنے دیگر تین ساتھی سینیٹروں کے ساتھ مل کر صدر ٹرمپ کو باقاعدہ خط لکھا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے اہم شواہد ملنے کے باوجود وائٹ ہائوس سعودی قیادت کو بچانے کے لئے گول مول باتیں کر رہا ہے۔ جس سے امریکی اقدار خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ سینیٹر ڈک ڈرین کے بقول جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل پر 21 سعودی باشندوں کو بلیک لسٹ کرنا ایک کمزور جواب ہے۔ امریکہ کو چاہئے کہ جب تک ایک غیر جانبدار اور تھرڈ پارٹی کی جانب سے واقعے کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتی۔ نہ صرف وہ سعودی سفیر کو ملک بدر کر دے، بلکہ اپنے اتحادی ممالک کو بھی ایسا ہی قدم اٹھانے کے لئے کہے۔
تاہم عالمی ذرائع ابلاغ سے وابستہ بیشتر تحقیقاتی رپورٹرز اور مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ پر اندرونی و بیرونی دبائو کے باوجود بااثر اسرائیلی لابی کی پس پردہ کوششیں کامیاب ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ کیلی فورنیا کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھانے والے تجزیہ کار پروفیسر اسعد خلیل نے بھی موجودہ بحران سے سعودی بادشاہت بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کو نکالنے کے لئے اسرائیلی لابی کی پس پردہ سرگرمیوں کی اطلاع دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی جمال خشوگی کے ایشو کو دبانے کے لئے ارکان کانگریس کے ساتھ مل کر سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ کیونکہ کمیٹی کے محمد بن سلمان سے بڑے مفادات وابستہ ہیں۔ اس سوال پر کہ اسرائیلی لابی کی یہ کوششیں کیا کامیاب ہو جائیں گی؟ ابو خلیل کا کہنا تھا ’’حقیقتاً اس وقت اسرائیلی لابی بہت نروس ہے۔ کیونکہ ایک طرف جہاں اسرائیلی لابی سعودی ولی عہد کو بچانا چاہتی ہے، وہیں دوسری جانب امریکی میڈیا اور کانگریس کے اندر اس واقعہ پر سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پس پردہ محمد بن سلمان کی بہت زیادہ حمایت کی جا رہی ہے۔ اندرونی طور پر سعودی ولی عہد خاصے مضبوط ہیں اور فی الحال یہ امکان بہت کم ہے کہ شاہی خاندان کے اندر سے کوئی ان کا تختہ الٹ دے۔ کیونکہ شاہی خاندان کے بااثر ارکان کو محمد بن سلمان مکمل طور پر سائیڈ لائن کر چکے ہیں۔ ابو خلیل کے بقول سعودی ولی عہد کو اقتدار سے ہٹانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ امریکہ ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لے۔ چونکہ اسرائیلی ایسا نہیں چاہتے تو فی الحال اس کا بھی کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ ابو خلیل کے بقول اگلے برس محمد بن سلمان اسرائیلی پارلیمنٹ (Knesset) میں جاکر اسرائیل سے اپنے تعلقات مزید مضبوط بنا سکتے ہیں، جیسا کہ 1977ء میں سابق مصری حکمراں انور سادات نے ڈرامائی طور پر یروشلم میں اسرائیلی پارلیمنٹ کا دور کیا تھا اور یوں امریکی، اسرائیلی کیمپ میں اپنی جگہ پکی کر لی تھی۔
ادھر فلسطین کے معاملات پر فوکس رکھنے والی معروف آئن نیوز پبلی کیشن الیکٹرانک انتفادہ کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے صحافی جمال خشوگی کے لرزہ خیز قتل کی تفصیلات سامنے آتی جا رہی ہیں، الزامات کی انگلیاں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر اٹھ رہی ہیں۔ یہ اسرائیل اور اس کی لابی کے لئے بڑی پریشانی کن صورت حال ہے، جو سعودی ولی عہد کو اپنے اہم علاقائی اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 2 اکتوبر کو جمال خشوگی کے قتل سے پہلے تک یورپی حکمرانوں، امریکی سیاستدانوں اور ان کے پنڈتوں، اور سلیکون ویلی کے ارب پتیوں میں سعودی حکمرانوں کے قصیدے پڑھے جا رہے تھے۔ تاہم جمال خشوگی کے قتل کے بعد اب ان میں سے بیشتر تنقید سے بچنے کے لئے خود کو دور کر رہے ہیں۔ ان میں سعودی ولی عہد کے حد درجہ مداح سرا اور نیو یارک ٹائمز کے کالم نویس تھامس فرائیڈ مین بھی شامل ہیں۔ فرائیڈ مین اینڈ کمپنی اصلاح پسند کے طور پر محمد بن سلمان کی مارکیٹنگ کرتی رہی ہے۔ الیکٹرانک انتفادہ مزید لکھتا ہے کہ اسرائیلی لابی کے زور آور رکن اور طویل عرصے سے امریکی ’’امن عمل‘‘ میں شریک اسٹیورڈ ڈینس راس نے تو ولی عہد کو ایک سعودی انقلابی قرار دے رکھا تھا۔ استنبول کے سعودی قونصل خانے کے اندر واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس کا قتل تو دور دراز ہوا، لیکن اس گھر کے نزدیک چوٹ لگائی۔ نیو یارک ٹائمز نے اعتراف کیا ہے کہ اب جیسا کہ سعودی عرب ان الزامات کے جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان قتل کے جرم میں شریک تھے۔ ایسے میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور ولی عہد کے دیگر علاقائی اتحادیوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے کہ سعودی شہزادے کو پہنچنے والے نقصان سے ان کے اپنے منصوبے اور ترجیحات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
تاہم محمد بن سلمان کی اسرائیل کے نزدیک اہمیت کی وجہ سے جمال خشوگی کے قتل پر جاری غیظ و غضب کے دوران اب بھی چند آوازیں خاموش ہیں۔ بز فیڈ نیوز کے مطابق چونکہ اسرائیل، سعودی عرب کا غیر اعلانیہ اتحادی ہے، لہٰذا وہ اب تک جمال خشوگی کی ہلاکت پر خاموش ہے۔
اسرائیل میں صدر اوباما کے دور میں امریکی سفیر ڈین شاپیرو کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیلی اس وقت بڑی مشکل پوزیشن میں ہیں۔ ریجن میں اپنے مرکزی اسٹرٹیجک تصورات کے حوالے سے وہ سعودی عرب پر بہت زیادہ تکیہ کرتے ہیں۔ اور بے شک ایران سے مشترکہ دشمنی کی وجہ سے اسرائیل اور سعودی عرب ایک دوسرے کے کٹر اتحادی ہیں‘‘۔ دوسری جانب اسرائیل بیجن سادات سنٹر فار اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کے جیمز ڈورسے نے متنبہ کیا ہے کہ جمال خشوگی کے واقعے نے سعودی عرب کو کمزور کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کے حق میں فلسطین تنازع کا تصفیہ کرانے سے متعلق صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کو دھچکا لگے گا، جنہیں سعودی حکمرانوں نے عرب جامہ پہنا رکھا تھا۔
اسرائیلی اخبار ہیرٹز میں آرٹیکل لکھنے والی خاتون اسرائیلی سیاستدان زیویا گرین فیلڈ سعودی ولی عہد کی بہت بڑی حامی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’پچھلے پچاس برس سے ہم ایک ایسے عرب رہنما کے لئے دعائیں کر رہے تھے، جو اسرائیل کے ساتھ اہم معاہدے پر دستخط کے لئے آمادہ ہو جائے۔ بالآخر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی شکل میں ایسا لیڈر آ گیا ہے۔ لہٰذا انہیں فارغ کرنے کا مطالبہ تباہ کن ہے۔ زیویا گرین فیلڈ کے مطابق اگر محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کے قتل کا حکم بھی دیا ہو، پھر بھی ان کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹائمز آف اسرائیل لکھتا ہے کہ اسرائیلی سیاسی اور عسکری ایلیٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق سعودی عرب کی سپورٹ میں اسرائیلی حکام خاموش ڈپلومیسی سے کام لے رہے ہیں۔ اخبار سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر ڈور گولڈ کا کہنا تھا کہ ’’مشرق وسطیٰ سے متعلق اسرائیل کے علم کو یورپ سمیت دنیا کے بڑے حصے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا سعودی عرب سے دور ہونے کے منفی اثرات کے بارے میں اسرائیلی انتباہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس انتباہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ تاہم ڈور گولڈ کے بقول اس قسم کا کام پس پردہ کیا جانا چاہئے۔ امریکی ’’امن عمل‘‘ کے ساتھ طویل عرصے تک جڑے رہنے والے ایک اور سفارت کار مارٹن انڈک بھی ہیں، جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اسرائیلی لابنگ گروپ اے آئی پی اے سی کے قیام کردہ تھنک ٹینک سے کیا تھا۔ وہ جمال خشوگی کے قتل سے سعودی عرب کو پہنچنے والے ڈمیج کو کنٹرول کرنے کے حامی ہیں۔ بلوم برگ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے مارٹن انڈک کا کہنا تھا کہ ’’سعودی حکمرانوں کو خشوگی کے موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ امریکہ نے اپنی ایران مخالف اسٹرٹیجی میں ’’ستون‘‘ بنا رکھا ہے۔ تاہم سعودی قیادت اور بالخصوص محمد بن سلمان کو اس بحران سے نکالنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔ ولی عہد کو نہ صرف اپنے اس بیانیہ کو مزید مضبوط بنانے کے لئے کہ معاملے کی مکمل شفاف تحقیقات کرائی جائیں گی، متحرک رول ادا کرنا چاہئے۔ بلکہ ایشو کو دبانے کے لئے چند مثبت اقدام پر فوکس کرنا ہو گا‘‘۔ مارٹن انڈک نے تجویز دی کہ اس سلسلے میں ولی عہد یمن سے فوج نکالنے کا اعلان کر سکتے ہیں یا اصلاح پسند خواتین قیدیوں کو رہا کر کے موضوع کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، جنہیں حکومت پر تنقید اور آزادانہ خیالات کی وجہ سے جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔
سعودی ولی عہد کی حمایت اور مقتول صحافی جمال خشوگی کی کردار کشی کے لئے ایک اور لابی گروپ ’’دی اسرائیل پروجیکٹ‘‘ کے سربراہ جوش بلاک نے بھی ٹوئٹر پر مہم چلا رکھی ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں جوش بلاک نے جمال خشوگی کو اسلامی انتہا پسند دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’وہ اسامہ بن لادن، داعش، حماس سے قریب تھا اور سعودی شاہی خاندان کا تختہ الٹنا چاہتا تھا ۔ لہٰذا ایسے شخص کے قتل پر زیادہ شور مچانا سمجھ سے بالاتر ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More