نجم الحسن عارف
بھارت میں فصلوں کی باقیات جلائے جانے کے باوجود پنجاب حکومت اسموگ پر قابو پانے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔ ’’سپارکو‘‘ سے دستیاب معلومات کے مطابق پاکستان کے پڑوسی بھارت کے ہزاروں ایکڑ زرعی رقبے پر فصلوں کی باقیات کو جلانے کا خطرناک سلسلہ ان دنوں عروج پر ہے۔ لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی بھرپور اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔ پنجاب میں محکمہ ماحولیات کے پاس ہوا میں آلودگی کی پیمائش کرنے والی چھ مشینوں میں سے ایک اب بھی خراب پڑی ہے، حالانکہ اسموگ کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ جبکہ پچھلے سال 30 نئی مشینیں حاصل کرنے کی سفارش کی گئی تھی، جس پر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی، نہ ہی نئے بجٹ میں ایسی کسی مشین کیلئے رقم مختص کی گئی ہے۔ 2016ء کے بعد آلودگی کی مانیٹرنگ اور پیمائش کرنے والی ایک بھی مشین محکمہ ماحولیات کے ’’فلیٹ‘‘ کا حصہ نہیں بن سکی۔ حد یہ ہے کہ 2016ء سے بھارت کے سرحدی زرعی رقبے سے پاکستان کا رخ کرنے والی اسموگ کے روایتی سیزن کے باوجود صوبائی محکمہ ماحولیات شہریوں کو آلودگی سے بچنے کیلئے پراپر ماسک پی ایم 2.5 سے بھی متعارف کرا سکا ہے نہ عوامی شعور و آگہی کی مہم چلائی جا سکی ہے۔ محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق ان صرف چالیس بھٹے اس نئے ’’زگ زیگ فائر سسٹم‘‘ کے مطابق اپنے سول اسٹرکچر میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔
دوسری جانب محکمہ ماحولیات پنجاب لاہور سمیت تقریباً تمام بڑے شہروں میں آلودگی اور اسموگ کے بڑھتے ہوئے چیلنج کے باوجود سڑکوں پر گاڑیوں کے اژدھام کو روکنے کیلئے حکومت سے عملی اقدامات نہیں کرا سکا ہے۔ البتہ صوبائی حکومت نے پچھلے سال کی طرح فوری طور پر دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا ہے، تاکہ کہیں کوئی شہری اپنی فصلوں کی باقیات جلائے نہ پبلک مقامات پر ٹائروں وغیرہ کو آگ لگاکر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کر سکے۔ حکومت نے تمام بھٹوں کو بھی 3 نومبر سے بعض علاقوں میں بند کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پچھلی حکومت نے اسموگ کے دنوں میں بھارتی حکومت سے رابطہ کر کے اس کی روک تھام کیلئے تعاون مانگا تھا، لیکن اس کے باوجود بھارت نے پچھلی حکومت کو کوئی جواب دیا تھا نہ ہی موجودہ صوبائی حکومت کی طرف سے دفتر خارجہ کے توسط سے کئے گئے رابطے کا کوئی جواب دیا ہے۔ محکمہ ماحولیات کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس محکمے کی ایک ٹیم نے ایک ماہ قبل اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے متعلقہ حکام سے مل کر بھارت سے اسموگ روکنے میں تعاون کیلئے کہا تھا۔
’’سپارکو‘‘ کے ذرائع کے مطابق بھارت کے پاکستان سے جڑے زرعی رقبے پر ان دنوں فصلوں کی باقیات کو جلانے کی مہم تیزی سے جاری ہے۔ لیکن قدرت پاکستان کے شہریوں کے ساتھ ہے، اس لئے ابھی تک ہوا کا رخ پاکستان یعنی مشرق سے مغرب کی طرف نہ ہونے کی وجہ سے اسموگ کے وہ اثرات پاکستان میں نہیں دیکھے جا رہے جو پچھلے برسوں میں ان دنوں تک محسوس کئے گئے تھے۔ بلکہ بھارتی آگ سے پیدا ہونے والی اسموگ کے ابھی تک زیادہ اثرات اس کے اپنے لوگوں کیلئے ہی نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔ اگر ہوا کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف ہوتا تو لاہور ڈویژن، گجرات و سیالکوٹ کے علاوہ گوجرانوالہ ڈویژن کے اضلاع، فیصل آباد، ساہیوال، ملتان اور مظفر گڑھ کے شہری بھی متاثر ہوتے۔ ’’امت‘‘ کو محکمہ ماحولیات کے ترجمان نے بتایا کہ اسموگ اور بڑھی ہوئی آلودگی سے بچنے کیلئے بی ایم 2.5 ٹائپ ماسک ضروری ہوتا ہے جو محکمہ ماحولیات کے کارکن استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ ابھی تک عام لوگوں کی دسترس میں نہیں۔ ترجمان کے مطابق پی ایم 2.5 ساخت کے ماسک گرد کے باریک ترین ذرات کو ناک اور منہ کے ذریعے نظام تنفس میں خرابی پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔ تاہم ترجمان نے یہ تسلیم کیا کہ اس بارے میں محکمہ ماحولیات نے کبھی بھی آگاہی مہم کا اہتمام نہیں کیا۔ ترجمان نے کہا جو لوگ عام میڈیکل اسٹوروں سے سبز یا سفید رنگ کے ماسک لے کر استعمال کر رہے وہ بھی نہ ہونے سے بہتر ہیں۔ ان کا استعمال جاری رکھنا چاہئے۔ یہ ڈسپوزایبل ماسک زیادہ سے زیادہ ایک دن ہی استعمال ہو سکتا ہے، جس کی قیمت 5 سے 10 روپے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ محکمہ ماحولیات کے ایک ذمہ دار سے جب پوچھا گیا کہ مارکیٹ میں عمومی طور پر دستیاب ماسک کپڑے سے بنے ہیں یا کاغذ سے تو انہیں اس کا علم نہیں تھا۔ واضح رہے اسپتالوں میں جانے والے مریض، ان کے تیماردار اور ڈاکٹر بھی بالعموم یہی ماسک استعمال کرتے ہیں۔
ادھر 3 نومبر سے بھٹے بند کرنے کے جزوی اعلان کے باوجود ابھی تک صوبائی حکومت خود اس بارے میں واضح کلیئر ہے کہ بھٹے بند کرنے کا حتمی فیصلہ کب کرے۔ صرف 20 سے 25 لاکھ روپے کے اضافی اخراجات سے بھٹوں کی آگ اور دھوئیں کو کنٹرول کرنے کا جدید نظام تشکیل پا سکے گا۔ اس کے صنعتی علاقوں میں ’’ایفکٹوایشن کنٹرول سسٹم‘‘ کے نام سے کئی سال پہلے متعارف کرایا گیا نظام بھی ابھی تک حکومتی ذرائع کے مطابق چالیس سے پچاس فیصد صنعتوں میں بروئے کار آسکا ہے۔ اس سے فیکٹریوں کا دھواں اور حرارت کنٹرول کیا جا رہا ہے۔اس سسٹم سے استفادہ حاصل نہ کرنے کے باعث باعث صنعتوں سے نامکمل استعمال شدہ ایندھن ہی دھوئیں اور حرارت کے ساتھ فضا میں شامل ہو کر آلودگی میں خطرناک اضافہ کرتا ہے۔
’’امت‘‘ کو ماہر زراعت ڈاکٹر گوہر رحمان نے بتایا ہے کہ اسموگ سے صرف انسان ہی نہیں جانور اور ان کا چارہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور زرعی اجناس کی پیداوار اور پھل بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر گوہر رحمان کے مطابق آج کل جانوروں کے چارے برسین کا سیزن ہے، جو اسموگ سے بہت متاثر ہوتا ہے۔ سپر کرنل چاول کی کٹائی بھی باقی ہے اس کی تیاری پر بھی یہ اسموگ بُرا اثر ڈالتی ہے۔ چاول موٹا ہو جاتا ہے اور اس کی شکل کے علاوہ غذائیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ پروسیسنگ بھی متاثر ہوتی ہے۔ عملاً یہ بہترین چاول موٹا اور ٹوٹا چاول بن جاتا ہے۔ نارووال، گوجرانوالہ، مریدکے، ڈسکہ، شیخوپورہ اور شاہدرہ کے اردگرد کا علاقہ سپر کرنل کیلئے اہم ہے۔ ڈاکٹر گوہر رحمان نے مزید بتایا کہ اس موسم میں اسٹابری کی پنیری لگائی جاتی ہے وہ بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ جبکہ نوعمر جانوروں کو اسموگ کی وجہ سے سانس کی بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن حکومت اور محکمہ تحفظ ماحولیات اس نقصان سے بچنے کیلئے سنجیدگی نظر نہیں آتے۔
٭٭٭٭٭