آغا مرزا تراب علی کے ہراولی سواروں نے انہیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور خود اجنبیوں کے پاس جا کر انہیں بغور دیکھا۔ سات آٹھ آدمی سپاہیوں کے لباس میں تھے لیکن نہتے اور مسکین لگ رہے تھے۔ وہ تین چار آدمی لیٹے ہوئے شخص کے سرہانے اور پائینتی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر انتہائی غم زدگی برس رہی تھی۔ وہ تو اپنی جگہ سے نہ اٹھے اور جو کچھ پڑھ رہے تھے وہ اسے پہلے کی طرح پست آواز میں ہی پڑھتے رہے۔ ہراول سواروں سے صاف نہ سنا گیا، لیکن وہ عربی میں کچھ دعا وغیرہ معلوم ہوتی تھیں۔ چار آدمی سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ ان کے بھی چہروں پر رنج اور افسوس کی مٹیالی رنگت دوڑی ہوئی تھی۔ ان کے بدن ڈھیلے اور جھکے ہوئے تھے، گویا عاجزی، مسکنت اور درماندگی کی آخری منزل طے کرچکے ہوں۔ ان کارنگ سیاہی مائل اور خال و خط اودھ والوں جیسے تھے۔ ان کے بھی ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہ تھا، لیکن ان کے پیچھے چار چھ بڑی بڑی گٹھریوں میں کچھ سامان بندھا ہوا تھا اور گٹھریوں کی لمبائی چوڑائی سے گمان گزرتا تھا کہ ان میں اسلحہ بھی ہوگا۔ انہوں نے توقع سے بھری ہوئی مسکین نگاہوں سے سواروں کو دیکھا اور ان میں سے ایک نے جھک کر تسلیم کی اور مردہ سی آواز میں بولا: ’’زہے نصیب کمیدان صاحب کہ آپ کا گزر ادھر سے ہوا۔ ہماری تو آس ٹوٹ چکی تھی…‘‘۔
سواروں میں سے ایک نے بات کاٹ کر خشمگیں لہجے میں کہا: ’’کیا بات ہے، کون لوگ ہو تم؟ یہاں کیوں کھڑے ہو؟‘‘۔
مسکین شخص نے، جوکھچڑی بالوں، کڑبڑی داڑھی اور جھریوں بھری گردن والا ادھیڑ عمر معلوم ہوتا تھا، کچھ آگے آنے کی کوشش کی لیکن سوار نے اسے گھرک دیا۔ ‘‘وہیں رہو۔ جو کہنا ہے وہیں سے کہو‘‘۔
’’کمیدان جی، کریم الدین میرا نام ہے۔ ہم سپاہی نواب صاحب چاند پور کے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں۔ ککرالا چھٹی پر گئے تھے۔ وہاں سے اپنی نوکری پر لوٹ رہے ہیں‘‘۔
سوار کے منع کرنے کے باوجود آغا تراب راہگیروں کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ وہ ان کی گفتگو بخوبی سن سکتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ راہگیر واقعی سپاہی ہیں اور مسلمان ہیں۔ انہوں نے معمولی سپاہیوں کی طرح گزی کے تنگ اور اونچے پاجامے پہن رکھے تھے۔ بدن پر نیلی سوسی یا محمودی کا تنگ شلوکا، اس کے اوپر پھولدار چھالٹی کی قبا جس کا دامن مسلمانوں کے طرز پر بائیں سے دائیں اوپر کو آتا تھا، سر پر مسلمانوں کے مخصوص طرز کی صافہ نما پگڑی، کمر میں مضبوط پٹکے جیسا ڈوپٹہ، لیکن خنجر یا طمنچے سے عاری، پائوں میں نیچی ایڑی کی نکے دار جوتیاں جن کی اڈیاں اونچی تھیں تاکہ تیز چلنے میں آسانی ہو۔ وہ از سر تا پا تھکے ہوئے، بلکہ ہارے ہوئے سپاہی معلوم ہوتے تھے۔ لیکن اسلحہ نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی۔
آغا تراب علی کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کڑبڑی داڑھی والے مسکین سپاہی کریم الدین نے زور کا نعرہ بلند کیا ’’اللہ تیرا شکر نواب صاحب تشریف لے آئے! رحمت کا فرشتہ اتر آیا!‘‘۔ یہ کہتے کہتے وہ زمین بوس ہو گیا۔ سڑک پر کھڑے باقی تین راہگیروں نے بھی جھک جھک کر تسلیمیں کیں اور پکارے، ’’اللہ سرکار کو سلامت رکھے۔ اب ہمارے مردے کو زندگی مل جائے گی‘‘۔
’’ شور مت مچائو۔‘‘ مرزا تراب علی نے ذرا نرم لہجے میں کہا۔ ’’ کیا معاملہ ہے؟ یہ مردے کی زندگی کا قصہ کیا ہے؟‘‘
جو چار راہگیر لیٹے ہوئے شخص کے پائینتی سرہانے تھے، اب ان کی آوازیں صاف سنائی دینے لگی تھیں۔ وہ نیم خواندوں کے لہجے میں سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ رہے تھے۔ کریم الدین نے زمین سے سر اٹھایا اور روہانسے گلے سے بولا ’’سرکار والا، وہ جوزمین پر پڑا ہے وہ ہمارا بھائی ہے۔ آج صبح قضائے حاجت کے لئے جا رہا تھا کہ اسے سانپ نے ڈس لیا۔ چٹ پٹ مر گیا، ہائے کیا جوان موت آئی‘‘۔ یہ کہتے کہتے اس نے زمین پر پڑے ہوئے شخص کے سر سے چادر سرکائی۔ اس کا چہرہ نیلا پڑ رہا تھا او منہ پر سبزی مائل جھاگ تھا‘‘۔ ہم تب سے یہاں پڑے ہیں کہ کوئی مولوی عالم شریف انسان نماز جنازہ اس کی پڑھ دے تو ہم اسے دفن کر دیں۔ ہم بے لکھے پڑھے، فرض نماز تھوڑی بہت جانتے ہیں، جنازے کی نماز کیسے پڑھائیں‘‘۔
’’ہوں۔ تو تم لوگ یہاں کس طرح پہنچے؟‘‘۔
پاس کھڑے دوسرے سپاہی نے پھر جھک کر تسلیم کی اور بولا ’’سرکار، ہم ککرالا سے چاند پور جا رہے ہیں۔ احدی نواب صاحب کے ہیں۔ چھٹی پر ککرالا اپنے وطن گئے تھے‘‘۔
مرزا تراب کو معلوم تھا کہ چاندپور نامی ایک چھوٹی سی ریاست بلہورا اور قنوج کے درمیان ہے۔ اس کے نواب سے ان کی معرفی نہ تھی لیکن اس کا نام انہوں نے سنا تھا۔ ’’کیا نام ہے تمہارے نواب کا؟‘‘۔
’’ عظیم الدولہ نواب مستقیم الدین خان صاحب بہادر، سرکار‘‘۔
راہگیر سپاہیوں کے منہ سے نواب کا صحیح نام سن کر مرزا تراب علی کو کچھ اطمینان ہوا۔ ’’اچھا، تو ہم تیز تیز جاتے ہیں اور اگلے گائوں سے تمہارے لئے کوئی مولوی بھجوانے کا بندوبست کرتے ہیں‘‘۔
’’عالی جاہ‘‘ دوسرے سپاہی نے کہا۔ ’’یہاں سے کئی کوس تک کوئی گائوں نہیں۔ دو کوس پر ایک نگلہ ہے، وہاں صرف ڈوم اور چمار رہتے ہیں، اونچی ذات کا ہندو بھی نہیں‘‘۔ وہ کچھ ہچکچایا۔ ’’سرکار، دیر ہونے میں لاش کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ اگر آپ ہی…‘‘۔
’’جی سرکار بہادر‘‘۔ اب وہ شخص بولا جو لاش کے سرہانے آیتیں پڑھ رہا تھا۔ ’’ہم غریب پردیسیوں پر اتنی مہربانی کر دیتے کہ نماز جنازہ پڑھا دیتے تو ہم سرکار کی سات پشتوں کو دعائیں دیں گے۔ اللہ کے یہاں آپ کو ثواب ملے گا‘‘۔
آغا تراب علی نے اپنے آدمیوں کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے تذبذب اور کچھ ناراضگی کا آئینہ تھے۔ بظاہر وہ یہاں مزید رکنے کے حق میں نہ تھے۔ نماز وغیرہ تو بہت دور کی باتیں تھیں۔ مرزا تراب علی نے ان کی خفگی بھانپ لی، لیکن اس سے ان کی ضدی طبیعت کو اور بھی اشتعال ملا۔ نماز جنازہ تو میں پڑھا کر رہوں گا، انہوں نے اپنے دل میں کہا۔ بچارے کو اس طرح بے گورو کفن چھوڑ دینا کہاں کی آدمیت ہے۔
’’صابر بخش‘‘۔ انہوں نے کہا۔ ’’وضو کے لئے پانی لائو۔ اور تم لوگ بھی وضو کر لو۔ پانی کم ہو تو مٹی پر ہاتھ مار لینا‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے اسلحہ الگ کرنے شروع کئے۔ ’’تم لوگ بھی اسلحہ اپنے الگ کر لو‘‘۔
انہوں نے حکم دیا۔ ’’اور جلدی کرو۔ دیکھتے نہیں ہو ہمیں دور جانا ہے‘‘۔
تیوری پر بل لئے صابر بخش اور دوسرے نوکروں نے جیسے تیسے اپنے ہتھیار اتارے، وضو کیا اور صف باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ راہگیر سپاہیوں میں سے ایک کے سوا باقی نے اپنی صف پہلے ہی بنا لی تھی۔ حفاظت کے خیال سے مرزا تراب کے آدمیوں نے اپنی صف راہگیر سپاہیوں کی صف کے آگے رکھ لی۔ ایک جو صف کے باہر تھا، اس کی طرف اشارہ کر کے کریم الدین نے کہا ’’سرکار نواب صاحب اور ملازمان کے ہتھیار حفاظت سے رہیں گے۔ ہمارے بھی ہتھیار ان گٹھڑیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہ سربلند خان رکھوالی ان کی کرے گا۔ نواب صاحب حضور، نماز پڑھا دیں‘‘۔
سر بلند خان کا نام کریم الدین کی زبان سے ادا ہوتے ہی آغا تراب کو کچھ ایسا لگا جیسے سپاہیوں میں کچھ بجلی سی چمک گئی ہو۔ ان کے ڈھیلے بدن چست اور مستعد اور ڈھلی ہوئی گردنیں سخت اور بلند معلوم ہونے لگیں۔ آغا تراب کے سینے میں اچانک زور سے دھڑکن ہوئی، جیسے کسی نے گھونسہ مار دیا ہو۔ کچھ نہیں، شاید دھوپ کا اثر ہے، انہوں نے دل میں کہا۔ جاڑوں کی دھوپ بڑی فریب کار ہوتی ہے۔ وہ نماز کے لئے آگے بڑھے، جہاں ایک سپاہی کا چوڑا رومال جا نماز کے طور پر بچھا دیا گیا تھا۔
مرزا تراب علی نے تکبیر کہہ کر نیت باندھ لی۔ دونوں صفوں نے بھی ہاتھ باندھ لئے۔
چند ہی ثانیے گزرے تھے کہ اچانک کسی نے گفتگو کے لہجے میں آہستہ سے کہا ’’تماکھو کھالو‘‘۔
یہ آواز ہوتے ہی مردہ سپاہی جس کی نماز جنازہ پڑھائی جا رہی تھی، تیندوے کی طرح اچھل کر آغا تراب علی پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ ادھر کریم الدین نے چشم زدن سے بھی کم مدت میں اپنے گریبان سے زرد اور سفید پٹیوں والا موٹے کپڑے کا کوئی پون گز کا رومال نکالا جس کے ایک سرے پر گرہ دی ہوئی تھی۔ اس نے سیاہ گوش یا نیولے کی سی سرعت سے آگے بڑھ کر روماں گھمایا جیسے سانپ نے پھن کاڑھ کر حملہ کیا ہو۔ رومال کا حلقہ مرزا تراب علی کی گردن میں پچی ہو گیا۔ ان کے منہ سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ رومال کا دوسرا سرا کریم الدین نے اس زور سے کھینچا کہ آغا تراب علی کے نرخرے کی ہڈی جگہ جگہ سے شکستہ ہو کر ان کے حلق کی پشت میں دھنس گئی۔ انہوں نے سانس لینے کے لئے منہ کھولنا چاہا لیکن کھولا نہ گیا۔ پھر ان کے سینے اور گلے میں شدید درد اٹھا اور انہیں نہ معلوم ہوا کہ کب وہ زمین پر آ رہے، اور کب ان کی روح نے عالم بالا کا رخ کیا۔ مکمل سکوت کے عالم میں سات تندرست اور تنومند مردوں کو رومال کے ذریعے ٹھکانے لگانے میں چوتھائی گھڑی بھی نہ صرف ہوئی۔ (جاری ہے)
Next Post