اربوں کا پلاٹ ہتھیانے کیلئے ایجوکیشن کمپلکس کا منصوبہ دبا دیا گیا

0

کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو)کلفٹن میں واقع اربوں روپے کا پلاٹ ہتھیانے کیلئے پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت کے بہنوئی نےسندھ ایجوکیشن کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ13 سال سے فائلوں میں دبا رکھا ہے۔ 2 بار پی سی ون کی منظوری اور ہر بجٹ میں بھاری رقم مختص ہونے کے باوجود اب تک ایک اینٹ بھی نہ رکھی جاسکی۔ 2005 میں منظور ہونیوالے منصوبے کا سنگ بنیاد 2012 رکھا گیا،جسے 2015 میں مکمل ہونا تھا، اس کا نظر ثانی شدہ پی سی ون 2016 میں دوبارہ منظور کروایا گیا۔ 2 مرتبہ قبضہ مافیا نے پلاٹ ہتھیانے کی کوشش کی جو مقامی افراد نے ناکام بنائی۔ کروڑوں خرچ کئے جانے کے باوجود اہم منصوبہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہ ہوسکا۔ منصوبے کی تکمیل سے افسر شاہی نجی بنگلوں میں قائم دفاتر کے کرایوں کے نام پر حاصل ہونے والے کروڑوں روپے سے بھی محروم ہوجائے گی۔ تفصیلات کے مطابق 2005 میں منظور ہونے والے سندھ ایجوکیشن کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود ابھی تک التوا کا شکار ہے جس کی اہم وجہ بوٹ بیسن کلفٹن بلاک 7 میں واقع اربوں روپے کے 23 ہزار اسکوئر فٹ کے پلاٹ کو قرار دیا جا رہا ہے، جس پر پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت کے بہنوئی کی نظر ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ تعلیم کی افسر شاہی بھی اس جدید منصوبے کو دبانے میں مصروف ہے، جس کی وجہ نجی بنگلوں میں قائم محکمہ تعلیم کے دفاتر کے نام پر حاصل ہونیوالے کروڑوں روپے ماہانہ ہیں جبکہ ونڈو ٹکٹ سسٹم متعارف ہونے اور عوام کو افسران سے دور رکھ کہ تمام امور کو کمپیوٹرائزڈ کرنے سے رشوت کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔سندھ ایجوکیشن کمپلیکس کے قیام کا مقصد محکمہ تعلیم سندھ کے تمام دفاتر کو یکجا کرکہ مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے منسلک کرنا تھا تاکہ صوبے کے دور دراز کے علاقوں سے آنے والے ملازمین اور عوام کو مختلف دفاتر کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔ 11 منزلہ عمارت میں صوبائی وزیر تعلیم اور سیکریٹری سمیت کراچی کےڈویژنل ڈائریکٹوریٹس کو منقل کیا جانا تھا۔ یہ منصوبہ پہلے جناح کورٹس کے قریب واقع اسپورٹس گراؤنڈ میں تعمیر ہونا تھا، تاہم اس وقت کے صدر آصف زرداری نے منصوبے پر اعتراض کیا کہ اس سے کھیلوں کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی، جس کے بعد یہ منصوبہ کلفٹن بلاک 7 منتقل کیا گیا، جس کی سمری کی منظوری اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے دی تھی۔ دستاویزات کے مطابق منصوبے کی اصل منظوری 14 مئی 2005 کو دی گئی اور پی سی ون منظور کروایا گیا، 24 مئی 2012 کو اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا، اس منصوبے کا مجموعی تخمینہ ایک ارب، 8 کروڑ ، 82 لاکھ روپےتھا، منصوبہ جون 2015 میں مکمل کیا جانا تھا، تاہم منصوبہ بندی کمیشن سے اس کے نظر ثانی شدہ پی سی ون کی منظوری 11 مارچ 2016 کو لی گئی، جس میں اس کی لاگت ایک ارب، 10 کروڑ، 44 لاکھ ، 49 ہزار روپے بتائی گئی، جس کا اے ڈی پی نمبر 277 تھا۔ منصوبہ ایگزیکٹو انجنیئر ایجوکیشن ورکس ڈویژن ون کراچی کے سپرد کیا گیا۔ اس منصوبے کی مد میں اس وقت تک کروڑوں روپے جاری کئے جا چکے ہیں۔ یہ منصوبہ کلفٹن بلاک 7 بوٹ بیسن میں 23 ہزار مربع فٹ اراضی پر قائم ہونا ہے۔ اس منصوبے کیلئے حاصل کی گئی، زمین بنیادی طور پر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ملکیت تھی، جس نے بورڈ آف گورنرز کی منظوری کے بعد یہ زمین اس شرط پر محکمہ تعلیم کے سپرد کی کہ جب یہاں 11 منزلہ ایجوکیشن کمپلیکس تعمیر ہوجائے گا، تو ایک فلور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کو دیا جائےگا۔ اس معاہدے کے بعد پلاٹ پر موجود سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے کیمپ آفس کو عارضی طور پر یہاں سے سندھ سیکریٹریٹ کے قریب ڈی جے سائنس کالج کے پرنسپل کے بنگلے میں بلامعاوضہ منتقل کیا گیا، جس پر محکمہ آرکائیو کے افسران قابض تھے، جن سے قبضہ ختم کروایا گیا۔ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی بار اس معاملے کو پارٹی اجلاسوں میں اٹھایا، لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی، دراصل افسر شاہی اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے سے متعلق ہر سال بجٹ میں بھاری رقم مختص کی جاتی ہے، لیکن کام شروع نہیں کرایا جاتا۔ کنسلٹنٹس کی فیس سمیت مختلف امور کے نام پر اس وقت تک کروڑوں جاری کئے جاچکے ہیں، لیکن ابھی تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔ انہوں نے موجودہ وزیر تعلیم کو پیغام بھیجا ہے کہ ایجوکیشن کمپلیکس سمیت تعلیم سے متعلق تمام زیرالتوا منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کئے جائیں۔ اس سلسلے میں جب سابق صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے سے متعلق کچھ نہیں جانتے موجودہ وزیر تعلیم سید سردار احمد سے رابطہ کریں۔ جب ان سے استفسار کیا گیا کہ ان کے دور میں اس منصوبے کے حوالے سے کیا اقدامات کئے گئے تو انہوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس سلسلے میں موجودہ صوبائی وزیر تعلیم سید سردار احمد اور سیکریٹری تعلیم قاضی شاہد پرویز سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More