عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
یہ منظر دیکھ کر مانو خوفزدہ ہوگیا اور چیخ مار کر امر دیپ سے لپٹ گیا۔ میں نے راہ روکنے والے اجنبیوں کا بغور جائزہ لے کر ان کے ارادے بھانپنے چاہے۔ جیپ رکتی دیکھ کر وہ ماہر شہ سواروں کے انداز میں باری باری گھوڑوں سے اتر آئے۔ جیپ کی ہیڈ لائٹ سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنی آنکھوں پر سایہ کر رکھا تھا۔ تاہم ان کے ہتھیاروں کا رخ مسلسل ہماری جانب رہا اور دائیں ہاتھ کی انگلی بھی ٹریگر پر جمی دکھائی دی۔
میں نے امر دیپ کی طرف دیکھا۔ اتفاق سے عین اسی وقت اس نے بھی میری طرف نظریں گھمائیں اور ہم دونوں کی نظریں ملیں۔ امر دیپ نے پلک جھپکتے میں میری آنکھوں میں موجود سوال پڑھ لیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے جو اشارہ کیا، اس کا مفہوم میں یہی سمجھ پایا کہ اس صورتِ حال میں مزاحمت مناسب نہیں ہے۔ میں نے اس کا اشارہ سمجھ کر غیر محسوس انداز میں اپنا ہاتھ واسکٹ کی جیب سے ہٹا لیا۔ لیکن میں ایک لمحے کے نوٹس پر ریوالور نکالنے کے لیے تیار تھا۔
اس دوران میں دونوں ہتھیار بردار جیپ کے دونوں دروازوں کی طرف آچکے تھے۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے چہروں کو ڈھاٹوں میں چھپا رکھا تھا۔ ان کے حلیوں کے علاوہ ان کی حرکات و سکنات بھی انہیں لٹیرے ظاہر کر رہی تھیں۔
امر دیپ نے مانوکو لپٹاکر تھپکی کے ذریعے تسلی دیتے ہوئے اپنی طرف والی کھڑکی سے جھانکتے پستول بردار کو ٹھیٹھ پنجابی میں مخاطب کیا۔ ’’کون ہو تم لوگ؟ کیوں راستہ روکا ہے ہمارا؟‘‘۔ اس کے لہجے میں خوف کی ہلکی سی جھلک بھی موجود نہیں تھی۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ اس گستاخی پر انہیں ڈانٹ رہا ہو۔ امر دیپ کی بات سن کر پستول بردار نے ایک نظر اپنے ساتھی پر ڈالی اور پھر جواب دیا۔ ’’یہ بات تو تمہارے سے لپٹا بچہ بھی سمجھ گیا ہوگا کہ ہم کون ہیں اور ہم نے کس لیے تمہاری راہ کھوٹی کی ہے۔ خیر، چپ چاپ سارا مال نکال کر ہمارے حوالے کر دو، ورنہ…‘‘۔
امر دیپ نے اس کی بات کاٹ کر ڈپٹا۔ ’’اچھا ٹھیک ہے۔ اب اپنا منہ بند رکھو۔ یہ لو، اور دفع ہوجاؤ‘‘۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی سیٹ کے پہلو میں رکھا ایک چرمی بیگ اٹھایا اور پستول بردار کی طرف بڑھا دیا، جو اس نے بے تابی سے اپنے قبضے میں کرلیا۔ وہ شاید پیچھے ہٹنے کر ہمیں جانے کی اجازت دینے ہی والا تھا کہ شاٹ گن والے نے اسے ڈپٹا۔ ’’اوئے مورکھ، دیکھ تو لے اس میں مال ہے بھی یا نہیں!‘‘۔
میں نے دیکھا کہ اپنے ساتھی کو یہ مشورہ دینے کے دوران بھی اس نے مجھ پر سے نظریں نہیں ہٹائی تھیں اور بندوق کی دونوں نالیوں نے ہمیں زد میں لے رکھا تھا۔ وہ لٹیرا میری توقع سے زیادہ گھاگ ثابت ہو رہا تھا۔
مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ اس سارے ناٹک سے مانو بری طرح خوف زدہ ہو چکا ہے۔ اس کا جسم دھیرے دھیرے لرز رہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میرا غصہ قابو سے باہر ہونے لگا۔
اس دوران میں پستول والے لٹیرے نے اپنے بائیں ہاتھ اور دانتوں کی مدد سے بیگ کھول لیا تھا۔ اس نے بے تابی سے بیگ میں ہاتھ ڈال کر رقم نکالی، لیکن نوٹوں کی چھوٹی سی گڈی ہاتھ لگنے پر وہ چونکا اور پھر اس نے بلند آواز میں اپنے ساتھی کو مطلع کیا۔ ’’اس میں تو بس دو تین ہزار روپیہ ہے!‘‘۔
یہ سن کر شاٹ گن والا لٹیرا بھڑک اٹھا۔ اس نے خوں خوار لہجے میں امر دیپ کو کہا۔ ’’باقی مال کہاں ہے؟ فٹافٹ نکالو، ورنہ چھلنی کردوں گا سب کو!‘‘۔
امر دیپ نے بے نیازی سے کہا۔ ’’ہمارے پاس جتنی رقم تھی، وہ تم لوگوں کے حوالے کر دی ہے۔ سو دو سو روپے جیب میں اور ہیں، وہ بھی لے لو اور ہماری جان چھوڑ دو، ہمیں بہت دور جانا ہے‘‘۔
یہ سن کر پستول والا لگ بھگ چیخ کر بولا۔ ’’جھوٹ مت بولو، باقی مال جہاں بھی چھپا رکھا ہے، چپ چاپ نکال دو، ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ہمیں پتا ہے تم منڈی سے کم ازکم پچیس تیس ہزار روپیہ لے کر آئے ہو‘‘۔
اس کی بات سن کر امر دیپ چونکا۔ ’’اچھا تو تم پکی مخبری ملنے پر یہاں گھات لگا کر ہمارا انتظار کر رہے تھے؟ خیر، تم لوگوں کو ٹھیک اطلاع ملی تھی۔ میں واقعی پچیس تیس ہزار روپے ساتھ لانے والا تھا۔ لیکن تم لوگوں کی بدقسمتی کہ آج تین آڑھتیوں نے ایڈوانس نہیں دیا اور مجھے مجبوراً یہ ساڑھے تین ہزار روپیہ ساتھ لے کر واپس جانا پڑ رہا تھا۔ میری بات کا یقین نہ آئے تو تلاشی لے لو‘‘۔
امر دیپ کی بات سن کر ان دونوں نے مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اچانک شاٹ گن والے نے جھنجلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ تمہیں بیوپاریوں سے کتنی رقم ملی ہے۔ تمہیں ہر قیمت پر کم ازکم تیس ہزار روپیہ ہمارے حوالے کرنا ہے۔ اس رقم کا بندوبست تم کیسے کرو گے، یہ تمہارا مسئلہ ہے‘‘۔
امر دیپ اس کی بات سن کر طیش میں آگیا۔ ’’لگتا ہے تم لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اس جنگل بیابان میں اتنی بڑی رقم میں کہاں سے پیدا کروں؟ تم دونوں کہیں مٹھا مالٹا (مقامی شراب) کی دو چار بوتلیں چڑھا کر تو نہیں نکلے ہو؟‘‘۔
اس بار پستول والے نے جواب دینے کی ذمہ داری سنبھالی۔ ’’مجبوری ہے۔ ہمیں یہ رقم ہر قیمت پر تم سے وصول کرنی ہے۔ اگر تمہارے پاس ابھی ہوتی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا، لیکن اب تمہیں اس رقم کا بندوبست کر کے اسے ہم تک پہنچانا ہوگا‘‘۔
یہ سن کر میں چونکا۔ میرے ذہن میں ایسا سنگین اندیشہ کلبلایا تھا، جس نے مجھے بری طرح مضطرب کر دیا تھا۔ میں نے جلدی سے امر دیپ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں گہری تشویش دیکھ کر مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ بھی میرے انداز میں سوچ رہا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭