اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لئے نون لیگ کاندھا دے گی

0

امت رپورٹ
ریاستی پالیسی ادارے اٹھارہویں ترمیم کی جن بعض شقوں کو ملکی سالمیت کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں، مسلم لیگ ’’ن‘‘ ان شقوں کے خاتمے کے لئے کاندھا دے گی۔ پیپلز پارٹی کے زیادہ قریب نہ ہونے سے متعلق نون لیگ کی حالیہ پالیسی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے حکومت مخالف گرینڈ اپوزیشن اتحاد بنانے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو ایک صفحے پر لانے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ کوششیں تاحال ناکامی کا شکار ہیں۔ منگل کے روز سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے چھوٹے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا اور فیصلہ ہوا کہ راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں پارٹی کا پانچ رکنی وفد اے پی سی میں شرکت کرے گا۔
بعض اہم معاملات میں پس پردہ ہونے والی ڈویلپمنٹ سے آگاہ ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے این آر او نہ دینے کی جو بات دوہرائی جا رہی ہے۔ اس میں ان کی مخاطب مسلم لیگ ’’ن‘‘ نہیں، بلکہ پیپلز پارٹی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پچھلے چند ماہ کے دوران پیپلز پارٹی نے ایک سے زائد بار مفاہمت (جسے این آر او کا نام دیا جا رہا ہے) کا پیغام حکومت اور دیگر بااختیار طاقتوں کو پہنچایا۔ لیکن اس پیغام کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ بعد ازاں مایوسی کے بعد پیپلز پارٹی نے نہ صرف بطور اپوزیشن متحرک ہونے کا فیصلہ کیا۔ بلکہ شریف برادران سے تلخیاں ختم کرنے پر بھی آمادہ ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق لیکن اب گیم پلٹ چکا ہے۔ اس وقت نواز شریف کو آصف زرداری کی ضرورت نہیں، بلکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کو سابق وزیر اعظم کی مدد درکار ہے۔ ذرائع کے بقول ملک میں بلا امتیاز احتساب کی حامی قوتیں سمجھتی ہیں کہ کرپشن میں ملوث پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات کو چھوڑ دینے سے اس بیانیے کو سخت نقصان پہنچے گا، جس کی بنیاد پر ’’نئے پاکستان‘‘ کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق قبل ازیں اٹھارہویں ترمیم اور دیگر اہم ایشوز کے پیش نظر پیپلز پارٹی پر ہلکا ہاتھ رکھا جا رہا تھا۔ تاہم بلا امتیاز احتساب کا تاثر قائم رکھنے کے لئے طاقت کے مراکز نے اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ جعلی بینک اکائونٹس کیس اور دیگر کرپشن کے معاملات سے جڑے پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ اس وقت جہاں ایک طرف ایف آئی اے سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش کر رہی ہے۔ وہیں نیب میں پیپلز پارٹی کے دو سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی، موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سہیل انور سیال، آغا سراج درانی، جام خان شورو، شرجیل میمن، ضیاء لنجار اور اعجاز جاکھرانی کے خلاف تحقیقات یا مقدمات جاری ہیں۔
ذرائع کے مطابق اٹھارہویں ترمیم کی اہم شقوں کے خاتمے کے لئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت پوری کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کے متبادل کا کردار مسلم لیگ ’’ن‘‘ ادا کرے گی۔ ذرائع کے بقول پالیسی ساز پوری اٹھارہویں ترمیم کے خلاف نہیں۔ تاہم تعلیم، صحت، امن و امان اور چند دیگر شقوں کو وفاق کے لئے نقصان دہ اور ملکی سالمیت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سندھ نے اٹھایا ہے۔ بالخصوص امن و امان سے متعلق شق، سندھ میں احتساب کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اور یہ کہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ مزید مضبوط ہوا ہے۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کس صورت اٹھارہویں ترمیم کی اہم شقوں کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ اس کے برعکس صوبہ پنجاب اٹھارہویں ترمیم میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ اور اس شق سے فائدہ اٹھانے والوں میں بھی شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے اندر یہ مضبوط بیانیہ موجود ہے کہ اگر ملکی مفاد میں حکومت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پھر وہ اس کا ساتھ دے گی۔ ذرائع کے بقول پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بتدریج یہ بیانیہ اسی لئے چلایا گیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کی شقوں میں تبدیلی کا معاملہ جب بھی پارلیمنٹ میں لایا جائے گا تو مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ارکان اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔ پس پردہ یہ سب کچھ طے ہو چکا ہے۔ اس کے عوض جس قدر ممکن ہوا، مستقبل قریب میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو ریلیف ملے گا۔ ذرائع نے نواز شریف اور مریم نواز کی پراسرار خاموشی کو بھی اسی معاملے سے جوڑتے ہوئے کہا کہ نون لیگ یہ یقین دہانی بھی کرا چکی ہے کہ وہ فوری طور پر مرکز یا پنجاب میں تحریک عدم اعتماد یا احتجاج کے ذریعے حکومت گرانے کے کسی پلان کا حصہ نہیں بنے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ احتساب کا دائرہ نہ صرف پیپلز پارٹی تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بلکہ آنے والے دنوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں فوجی شہداء کے خاندانوں کی اراضی پر قبضے کے خلاف نیب میں درخواست دائر کرنے پر مشاورت کی جا رہی ہے۔ ذرائع کے بقول حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے مسلم لیگ ’’ن‘‘ اور پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ جے یو آئی (ف) کی بے چینی کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے برعکس ان کے پاس پہلی بار سیاسی طور پر کچھ نہیں۔ پھر یہ کہ مولانا فضل الرحمن نے محسوس کر لیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بعد اگلا ٹارگٹ ان کی جماعت ہو گی۔ پی ٹی آئی پشاور کے ایک عہدیدار کے مطابق تحریک انصاف اراضی پر قبضے کا معاملہ پہلے بھی اٹھاتی رہی ہے۔ اب اس قبضے کے خلاف نیب میں درخواست دائر کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ 25 جولائی کے عام انتخابات سے چند ماہ پہلے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شفقت محمود نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں الزام لگایا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور خیبر پختون کے سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی نے فوجی شہداء کے خاندانوں کی 12 سو کنال اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔ شفقت محمود کا کہنا تھا کہ 2001ء میں خیبر پختون حکومت نے کارگل کے شہداء اور فوجیوں کے دیگر مستحق خاندانوں کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک لاکھ کنال سے زائد اراضی فوج کو دی تھی۔تاہم 2002ء میں جب صوبے میں متحدہ مجلس عمل برسراقتدار آئی اور اکرم درانی وزیراعلیٰ تھے تو مولانا فضل الرحمن اور اکرم درانی نے چھ سو، چھ سو کنال اراضی اپنے فرنٹ مینوں کے نام ٹرانسفر کرا لی تھی اور آج تک یہ قبضہ برقرار ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More