وزیر خانم عربی سے نابلد تھی، لیکن مرزا فخرو بہادر کو شاید غلط فہمی تھی کہ وہ عربی سے واقف ہے، یا وہ شاید سمجھ رہے تھے کہ حافظ کی غزل ہے، وزیر اس سے تو ضرور آشنا ہوگی۔ دربار کی شان اور گزشتہ زندگی کی یادوں کے ہجوم نے وزیر کے اوسان یونہی خطا کر رکھے تھے، ایسے میں فارسی کے شعر، وہ بھی عربی آمیز، اسے کہاں یاد رہتے۔ لیکن خدا کی مہربانی کہ اسے حافظ کی اسی غزل کا ایک بر محل شعر یاد آگیا۔ اس نے گھونگٹ کے کچھ آڑ سے لیکن آنکھیں ذرا اٹھا کر شعر پڑھا
دارم من از فراقت در دیدہ صد علامت
لَیسَت دُموع عَینی ھٰذا لَنا العَلامَہ
(میری آنکھوں میں آپ کے فراق کی صد ہا علامتیں ہیں۔ کیا میری آنکھ کے آنسو ہم عاشقوں کے لئے اس کی علامت نہیں ہیں؟)۔
مرزا فخرو پھڑک گئے۔ ’’واللہ کیا حاضر جوابی ہے۔ سبحان اللہ کیا حافظہ ہے۔ کیا ایسی ہم امید رکھیں کہ اس حافظہ بے مثال میں ہم بھی کہیں مقید ہوجائیں گے اور پھر نہ آزادکئے جائیں گے؟‘‘۔
وزیر خانم کی طبیعت تو اب آمد پر آگئی تھی۔ اب پوری غزل اس کے سامنے مثل کتاب کھلی ہوئی تھی۔ اس نے منہ گھونگھٹ سے نکالا اور اسی غزل کا شعر پڑھ دیا۔
باد صبا ز حالم ناگہ نقاب برداشت
کَالشَمسِ فِی ضُحاھا تَطلع مِنَ الغَمامَہ
(باد صبا نے اچانک میرے احوال پر سے نقاب اٹھا دی، جیسے کہ چاشت کے وقت کا سورج بادلوں
سے نکل آئے)۔
مرزا فخرو نے وزیر کی ٹھوڑی اٹھا کر اس کی پیشانی چومی اور کہا۔ ’’ واللہ، جی چاہتا ہے آپ کو یوں ہی سامنے بٹھائے رکھئے اور شعر سنتے رہئے۔ لیکن ہمیں اس سے بھی اہم اور دلچسپ کام درپیش ہیں۔‘‘ پھر انہوں نے خواجہ حافظ کی اسی غزل کا مقطع پڑھا
حافظ چو طالب آمد جامے و جان شیرین
حَتیٰ یَذوقُ مِنہُ کَاساً مِن الکِرامَہ
(اب جب حافظ طلبگار ہوا ہے تو ایک جام دے اور جان شیریں اس سے لے لے، تاکہ وہ فیاضی کے جام سے ایک گھونٹ چکھ لے)۔
وزیر نے سرگوشی کے لہجے میں کہا۔ ’’مرشد زادہ آفاق کے کنے سب کچھ ہے، مجھ بے چارہ کی ہستی کیا ہے جو آپ کے در خورد ہو‘‘۔
’’واللہ یہ تجاہل عارفانہ تو ہماری جان یوں ہی لے لے گا۔ آپ شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ ہماری جان اتنی قیمتی نہیں کہ ایک جلوے یا ایک بوسے کے برابر ٹھہرے۔ بالکل درست، و لیکن کبھی کبھی پاس طبع خریدار بھی تو کیا جاتا ہے۔ تمام معشوقوں کی طرف سے تو بابا فغانی جواب دے ہی گئے ہیں…‘‘
’’جی ہاں، آپ کو اپنے مطلب کی باتیں بہت معلوم ہیں۔ پر ہمیں تو بابا صاحب کی بات تکلف ہی لگے ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وزیر نے بابا فغانی کا شعر پڑھا
اے کہ می گوئی چرا جامے بہ جانے می خریایں سخن با ساقی ما گو کہ ارزاں کردہ است’’لیکن صاحب عالم، ہم نے تو ابھی کچھ ارزاں نہیںکیا‘‘۔
’’ہائے ظالم یہ تو نے کیا کہہ دیا۔ ہم اس دھوکے میں تھے کہ ہمارا جذب دل آپ کو یہاں کھینچ لایا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ دگرگوں نکلا۔ صاحب آپ کچھ بھی ارزاں نہ کریں، لیکن مراعات ہم پر ارزانی فرمائیں۔ آخر امیر خسرو کیا فرما گئے ہیں۔
ہر دو عالم قیمت خود گفتہ ای
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘
’’حضور صاحب عالم‘‘۔ وزیر نے اب گھونگھٹ بالکل لٹ کر شاہزادے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو کہیں کچھ مسامحہ ہوا ہے۔ نرخ بالا وہ کرے جو کبھی ارزاں ہوا ہو۔ آپ نے سنا نہیںپاسبان خود اند آگاہاںہم چراغ است لالہ ہم فانوسہمیں آپ بازار میں نہ ڈھونڈیں، بازار محبوبی میں بھی نہیں‘‘۔
’’واللہ، آپ تو بجھارتیں بجھا رہی ہیں۔ پھر آپ کو کہاں پائیے وزیر خانم؟ کیا آپ ہماری مطلوب و محبوب نہیں ہیں؟‘‘۔
’’ہم تو آپ کے طلبگار بن کر یہاں آئے ہیں صاحب عالم، ہم تو پہلے ہی آپ کے بندہ بے دام ہونے کو تیار بیٹھے ہیں، پھر نرخ بالا کرنے یا ارزاں کرنے کا کچھ مذکورہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن…‘‘۔
’’پھر لیکن کیا؟‘‘۔ مرزا فخرو نے بے چپن ہوکر پوچھا اور چاہا کہ بڑھیں۔ لیکن وزیر مرزا فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر خود ہی سرگوشی کے لہجے میں بولی: ’’میں پرستش نہیں استقلال کی جویا ہوں۔ میں بھی آپ ہی کی طرح لسان الغیب کی زبان سے عرض کرتی ہوںاز من جدا مشو کہ تو ام نور دیدہ ایمجھے اندھیرے میں نہ چھوڑ جائیے گا‘‘۔
فتح الملک بہادر نے وزیر کے ہاتھ پر بوسہ دیا او انتہائی نرم و شریں لہجے میں بولے: ’’صاحب من، کچھ جدائیاں ایسی ہوتی ہیں، جن پر کسی کا اختیار نہیں۔ لیکن اور کوئی صورت ایسی ہو ہی نہیں سکتی کہ آپ ہم سے جدا ہوںتو خوش می باش باحافظ برو گم خصم جاں می دہچو گرمی از تو می بینم چہ باک ازخصم دم سردم‘‘
’’میں تو اللہ سے دعا کرتی ہوں کاش کوئی ایسی صورت ہوجاتی کہ اتحاد ہی اتحاد رہ جاتا‘‘۔
’’وزیر بیگم، جو جتنا متحد ہے اتنا ہی ٹھیک ہے۔ جتنا اتحاد ممکن ہے اتنا ہم اللہ سے اپنے لئے مانگتے ہیں۔ دنیا اس سے بہتر ممکن ہوتی تو اللہ تعالیٰ کیا اس سے بہتر دنیا نہ بناتا؟ شاید انتشار ہی کلید حیات ہے۔ ہندو کو دیکھئے، مرد اپنے کو نذرآتش کر کے خاکے میں خاک ملا دیتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی ’’اَنَّہ عَلیٰ رَجعِہ لَقَادِر‘‘ ہے۔ جب سب اکٹھا کئے جائیں گے‘‘۔
’’لیکن انسانوں کی سرشت میں نسیان اور خود کامی بھر دی گئی تو پھر اتحاد کے کیا معنی ہیں؟ صاحب عالم آپ مرشد زادہ آفاق ہیں، آپ ہی اس گھتی کو حل کریں‘‘۔
’’صاحب، آپ انسان سے انسانیت ہی تو طلب کر سکتی ہیں؟ کوئی جواب آپ کے سوالوں کا دے بھی دے تو اس سے حقیقت تو نہ بدلے گی؟ ہم حقیقت اپنی پر قانع رہیں تو ہی بجا ہے…۔ لیکن یہ آپ کیسی باتیں لے بیٹھیں؟ کیا یہ شام و شب کبریٰ و صغریٰ کے لئے بنی ہیں، یا یہ بھی ہماری آتش شوق تیز تر کرنے کا ایک بہانہ ہے؟‘‘۔
صاحبِ عالم و عالمیان ایک لحظے کے لئے رکے، پھر انہوں نے میاں سلیم کا ایک شعر پڑھا۔ لیکن یہ شعر پڑھتے پڑھتے خود مرزا فخرو کے چہرے پر حیا کی سرخی سی دوڑ گئی۔ اتنی کھلی ہوئی بات ابھی پہلی ملاقات میں ان سے کہہ نہ بنتی تھی، لیکن سچ یہ ہے کہ وزیر خانم کی باتوں سے اب ان کا دل الجھنے لگا تھا۔
مرزا فخرو کی زبان سے یہ شعر ادا ہونا تھا کہ وہ رسمی دھاگے یا جھاڑ پھونک کے بے حقیقت گنڈے کا سا رشتہ جس میں وزیر خود کو اور ولی عہد سوئم کو منسلک دیکھتی تھی، اس کے دل سے تار عنکبوت کی طرح نابود ہوگیا اور گرداب آب زندگی کے نیچے چشمہ حیواں میں نئے سرے سے آب حیات چھل بل کرنے لگا۔ وزیر کو بالکل توقع نہ تھی کہ اب وہ قفل سرمہ گوں کبھی کھل سکے گا۔ وہ تو بقول میر انشاء اللہ خان ان سب چیزوں کو یکبار رو پیٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن مرشد زادہ آفاق کوئی تعویذ پہنے ہوئے تھے یا سلیم کے شعر میں کوئی موہنی پوشیدہ تھی یا پھر وزیر کی محبت ان کے جسم و جان کو اس طرح احاطہ کئے ہوئے تھی کہ وزیر کے بھی جسم و جان کو جائے فرار نہ رہی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post